ہوا، اس موقع پر مولانا سے ان کی کئی ملاقاتیں اور مجلسیں رہیں ۔ ۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر صاحب صدر جمہوریہ ہند منتخب ہوئے، اس زمانہ میں مولانا کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی؛ البتہ مولانا نے اس دور کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ:
’’اس میں شبہ نہیں کہ اس منصب کے لئے کوئی آدمی ڈاکٹر صاحب سے زیادہ سچا نہیں ، ان کی خوش قسمتی نہ ہو؛ لیکن ہندوستان کی خوش قسمتی تھی کہ اس کو ایک ایسا سجنے والا صدر جمہوریہ ملا جو علمی، دماغی، بیانی اور جسمانی ہر لحاظ سے اس کے لئے نہ صرف موزوں ؛ بلکہ اس کا وقار بڑھانے والا تھا‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۸۵)
۳؍مئی ۱۹۶۹ء کو ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
r علامہ عبدالعزیز میمنؒ:
حضرت مولانا علی میاں ؒ کا تعلق ۱۹۲۶ء سے ہی علامہ عبدالعزیز میمن سے ہوگیا تھا، اپنے پھوپھا مولانا سید محمد طلحہ حسنیؒ کے واسطہ سے یہ تعلق شروع ہوا، مولانا علامہ کے علم وفضل کے بے حد معتقد رہے، براہِ راست علمی تعارف ان کی کتاب ’’ابوالعلاء وما الیہ‘‘ کے ذریعہ ہوا، مولانا نے یہ کتاب پڑھی اور علامہ کی تحقیق وکمال کے قائل ہوگئے۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء میں اپنے سفر علی گڈھ میں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی تازہ تالیف ’’مختارات‘‘ پیش کی، مولانا نے اسی وقت کتاب کا مقدمہ دیکھا اور فرمایا: ’’مولوی صاحب آپ عربی بہت خوب صورت لکھتے ہیں ‘‘۔ یہ ایک بلند پایہ اور مسلم الثبوت ادیب کا اعتراف تھا، اسی موقع پر مولانا نے ان سے محسن کتابوں پر مضمون لکھنے کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کی اور ایک وقیع، پرمغز اور معلومات افزا مضمون لکھوایا جو طبع ہوا۔
تقسیم ہند کے بعد علامہ پاکستان منتقل ہوگئے، آخری عمر میں انہوں نے مولانا کو یہ پیغام بھجوایا جس میں یہ ذکر تھا کہ وہ ندوۃ العلماء کے کتب خانہ کے لئے ایک خطیر رقم دینا چاہتے ہیں ، اور ان کی خواہش یہ ہے کہ کوئی ایسا نظم ہوجائے جس سے وہ رقم محفوظ ہوجائے