ہے جن سے خواص کو خطاب کیا گیا ہے، یہ تقریر تو دیوبند کی تقریر سے بھی بڑھ گئی اور تاریخ میں زندہ رہنے کے قابل ہے، کس خوبصورتی سے کیسے کیسے حقائق ظاہر کئے گئے‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۴۵۱)
r مولانا عبدالسلام قدوائی ندویؒ:
مولانا عبدالسلام صاحب قدوائیؒ مولانا مرحوم کے رفیق درس تھے، پھر ندورہ کی تدریس اور ترقی، الندوہ کی ادارت وذمہ داری، ادارۂ تعلیمات اسلام کے قیام وانتظام، خدمت قرآن، عربی زبان کی تعلیم واشاعت، مجلہ تعمیر کی ادارت وترتیب میں یہ دونوں رفقاء ایک دوسرے کے معاون اور شریک رہے، مولانا شاہ معین الدین احمد ندویؒ کے انتقال کے بعد دارالمصنفین میں قیام، ماہنامہ ’’معارف‘‘ کی ادارت اور رفقاء دارالمصنفین کی رہنمائی وترتیب کے لئے پورے دبستان شبلی اور بزم سلیمانی میں مولانا عبدالسلام قدوائی ہی اہل تھے اور انہیں کا انتخاب ہوا، اس میں مولانا علی میاں ؒ کا اصرار شامل رہا، جسے انہوں نے قبول کیا، مولانا ان کی شرافت نفس، انسان دوستی، بے آزاری اور ہمدردی کی انسانی واخلاقی صفات سے غایت درجہ متأثر تھے ان کے ایک احسان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے کہ:
’’میں ان کا یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا کہ طالب علمی سے فراغت کے بعد ایک زمانہ میں جب تصوف کی بعض کتابوں کے مطالعہ سے مجھ پر زبان وادب کی بے حقیقتی کا غلبہ ہوا، اور طبیعت ادب وانشاء سے اچاٹ؛ بلکہ بیزار ہونے لگی اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی ساری دلچسپیوں اور توجہات کو مقاصد اور دینی علوم کے دائرہ میں محدود کروں گا، اسی زمانہ میں اپنے وطن رائے بریلی جاتے ہوئے لکھنؤ سے بچھراواں تک (جو مولانا عبدالسلام قدوائیؒ کا وطن ہے) میرا ان کے ساتھ ہوگیا، میرے اس رجحان سے وہ واقف تھے، سارے راستے وہ مجھے اس سے باز رکھنے اور دینی مقاصد اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے زبان وادب کی اہمیت کی ضرورت کو میرے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتے رہے، انہوں نے ہوش یار کیا کہ میں خدا کی بخشی ہوئی اس صلاحیت کو ضائع اور اس کی ناقدری نہ کروں جس سے میں دین کی خدمت