حضرت مولانا علی میاں ؒ کا جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ سے تعلق
جماعتِ اسلامی برصغیر ہندوپاک میں عصرِ جدید کی ایک منظم تحریک ہے، اور تعلیم یافتہ ودانشور طبقہ پر سب سے زیادہ اثر اس تحریک کا ہی پڑا ہے، جماعت کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا شمار بیسویں صدی کے نامور مفکرین اور داعیوں میں ہوتا ہے، حضرت مولانا علی میاں ؒ ۱۹۳۴ء کے بعد ہی سے ان سے واقف ہوگئے تھے اور انہوں نے ندوۃ العلماء میں تدریس کے دوران مولانا مودودیؒ کی کتابوں اور مقالات سے کافی استفادہ بھی کیا تھا اور اس استفادہ کا رنگ بھی مولانا علی میاں ؒ کی تحریروں میں نمایاں ہوا تھا۔
ملاقات پہلی بار اگست ۱۹۳۹ء میں لاہور میں ہوئی، مولانا محمد منظور نعمانی ودیگر رفقاء بھی ساتھ ہی تھے، مراسلات کا آغاز اگست ۱۹۴۰ء سے ہوا، مجلہ الندوہ میں ’’میری محسن کتابیں ‘‘ کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، اس کے لئے مولانا علی میاں ؒ نے مولانا مودودیؒ کو بھی دعوت دی، اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے جو لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم ہی ان کی اصل محسن کتاب ہے۔ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اسے پڑھئے، کتنا پیارا اسلوب ہے:
’’میری اصل محسن بس یہی ایک کتاب ہے، اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے، حیوان سے انسان بنادیا ہے، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیاہے کہ زندگی کے جس معاملہ کی طرف نظر ڈالتا ہوں ، حقیقت اس طرح برمے مجھے دکھائی دیتی ہے، گوئی اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے، انگریزی میں اس کنجی کو شاہ کلید (Master key)کہتے ہیں ، جس سے ہر قفل کھل جائے، سو میرے لئے یہ قرآن شاہ کلید ہے، مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں ، وہ کھل جاتا ہے، جس خدا نے یہ کتاب