’’واقعی آپ کا وجود مسعود اس وقت کم از کم میرے لئے سراسر رشک وغبطہ بنا ہوا ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۹۲)
تاریخ دعوت وعزیمت کی پہلی جلد کے مطالعہ کے بعد بھی مولانا گیلانی نے اپنے قلبی تأثر کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
’’دعوت وعزیمت کی تاریخ ملی ہے، اپنی گم گشتہ چیز ہاتھ آئی ہے، خدا ہی جانتا ہے کتنی دفعہ اس کے مطالعہ سے استفادہ کرتا رہوں گا، پڑھ رہا ہوں اور جی سیر نہیں ہوتا، خدا ہی جانتا ہے کہ میرے کتنے خوابوں کی تعبیر آپ کے ذریعہ پوری ہوگی‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۴۱۵)
مولانا گیلانی سے حضرت مولانا علی میاں ؒ کا تعلق صرف ذہنی وعلمی ہی نہیں تھا؛ بلکہ شخصی اور قلبی بھی تھا، اس لئے مولانا گیلانی کے سانحۂ ارتحال پر مولانا نے تحریر فرمایا:
’’بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے، وسعتِ نظر، وسعتِ مطالعہ، رسوخ فی العلم اور ذکاوت میں ان کی نظیر اس وقت ممالک اسلامیہ میں ملنی مشکل ہے، والغیب عند اللّٰہ، تصنیف وتالیف کے لحاظ سے وہ عصر حاضر کے عظیم مصنفین میں شمار کئے جانے کے مستحق ہیں ، انہوں نے اپنی کتابوں میں جو مواد جمع کردیا ہے، وہ بیسیوں آڈمیوں کو مصنف اور محقق بناسکتا ہے، اس ایک آدمی نے تن تنہا وہ کام کیا ہے جو یورپ میں پورے پورے ادارے اور تنظیمیں کرتی ہیں ، ان جیسا آدمی برسوں میں پیدا ہوا تھا اور اب ان جیسا آدمی شاید برسوں میں بھی پیدا نہ ہو‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۹۴)
r امام اہل سنت مولانا مولانا عبدالشکور فاروقیؒ:
حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی کا مولانا علی میاں ؒ کے خاندان سے بڑا قدیم اور گہرا ربط تھا، مولانا نے ان کی زیارت پہلی بار ۱۹۲۷ء میں اپتے استاذ خواجہ عبدالحئ فاروقی کے ساتھ کی اور بہت متأثر ہویئے، امام اہل سنت کے مواعظ نے لکھنؤ اور اطراف میں اصلاح وانقلاب کا بے مثال کام کیا، مولانا ان کے مواعظ کی تاثیر، دل پذیری، سادہ گفتگو، اندرونی جذب ارو دلی تڑپ سے بے حد متأثر ہوئے، مولانا کے بقول کم سے کم شہر لکھنؤ میں