مولانا کی اہم تصانیف، ترجمے اور خصوصیات
حضرت مولانا تین سو سے زائد کتابوں اور رسائل کے مصنف ہیں ، عربی میں ۱۷۷؍ تصانیف ہیں ، سب سے پہلی باضابطہ عربی تصنیف ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ (مطبوعہ ۱۹۵۰ء) ہے، اور اردو کی سب سے پہلی تصنیف ’’سیرتِ سید احمد شہیدؒ (مطبوعہ ۱۹۳۹ء) ہے۔
مولانا کی ان تصانیف نے ایک دنیا کو متأثر کیا، ان کی قابل فخر تصنیفات میں ’’ماذا خسر العالم‘‘ اپنے مضامین ومشمولات کی جامعیت، نزاکت واعتدال اور اسلوبِ بیان کی سحر آفرینی اور اثر اندازی کی وجہ سے اسلامی دنیا میں ایک فکری اور عملی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، یہ صرف ایک کتاب نہ تھی، ایک نسخۂ شفا تھا جس سے مریضوں نے اپنا مرض پہچانا، علاج کیا اور بیماری دور کی، ایک مدرسہ اور مکتب فکر کی اساس تھی جس کے زیر سایہ ہزاروں تلامذہ اور منتسبین تیار ہوئے اور یہ فکر دنیا کے ہر گوشہ تک پہنچانے میں لگ گئے، کتاب پڑھئے تو ایسا لگتا ہے کہ ایک آبشار ہے جس سے جھرنے بہہ رہے ہیں ، نگہِ بلند، سخنِ دلنواز اور جانِ پرسوز کے جو اوصاف کسی بھی میر کارواں کا رختِ سفر، زادِ راہ اور سرمایۂ حیات ہوتے ہیں ، وہ حضرت مولانا کی شخصیت میں ، کردار میں اور تصانیف میں خصوصاً ’’ماذا خسر العالم‘‘ میں بہت نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں ، کتاب کے صفحہ صفحہ سے مولانا کے دل کا گداز، فکر کی سلامتی اور پاکیزگی، معلومات ومطالعہ کی وسعت، عالم اسلام کے حالات کا باریک بینی سے جائزہ اور تمام مسائل ومشاکل کے حل کی بے لوث کوشش، مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری اور فرائض یاد دلانے کا ذوق وجذبہ نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ ’’ماذا خسر العالم‘‘ میں ایک مضمون ’’محمد رسول اللّٰہ روح العالم العربی‘‘ کے عنوان سے ہے، یہ کتاب کا سب سے جاندار اور طاقت ور حصہ ہے، مولانا اس کو اپنے لئے نجات وسعادت کا سرمایہ سمجھتے تھے۔ مولانا نے تحریر فرمایا کہ: