وحریف پیدا کرے، بے محل جدوجہد کرے اور بغیر دشمن کے جنگ کرتی رہے، اس کے مقابلہ میں چاہئے یہ کہ دعوت سلبی سے زیادہ ایجابی ہو، اس نقطۂ نظر سے کام کرے کہ ایمان کو برسر اقتدار لوگوں تک پہنچانا ہے، انہیں کے ہاتھ میں اسلام کا جھنڈا دینا ہے اور انہیں سے اسلامی نظام کو نافد کرانا ہے، یہ مطمح نظر صحیح نہیں کہ کسی خاص اسلامی اصلاحی تحریک کو اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کی جائے یا نظام اسلامی کی تنفیذ اور معاشرہ میں انقلاب کا حق کسی خاص جماعت کے افراد یا کچھ داعیوں کے لئے مخصوص کردیا جائے، مجھے اسلام میں اصلاح وتجدید کی طویل تاریخ میں کوئی بھی مثال کوئی تحریک جس کو حیرت انگیز کامیابی ملی ہو یا کوئی مصلح حالات میں انقلاب لانے، تاریخ کا رخ موڑنے اور اسے نئی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوا ہو، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی (م۱۰۳۴ھ) جیسی نہیں ملتی۔ (اسلامی بیداری کی لہر پر ایک نظر، بقلم: مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ۳۰-۳۱)
(۴) جاہ ومنصب سے بے نیازی
اسلامی دعوت اور اسلامی بیداری کے لئے چوتھا ضروری عنصر یہ ہے کہ اس کے قائدین میں جاہ ومنصب اور عیش وعشرت کی زندگی اور جاہ ومنصب والوں کو اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ، ان میں ان کی ریس سے بڑی حد تک دور رہیں اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے (بغیر رہبانیت اور غلو کے) اپنی استطاعت بھر زہد وقناعت اور توکل کی صفات اپنے اندر پیدا کریں اور سلف صالحین اور اصحابِ عزیمت کے نقش قدم پر زندگی گذارنے کی کوشش کریں ۔ تاریخ اسلامی میں ہمیں زہد وقناعت اور تجدید واصلاح کی کوششیں ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں ، طویل اسلامی تاریخ میں جن شخصیتوں نے زمانہ کی رفتار بدل دی، تاریخ کے دھارے کو موڑدیا، اسلامی معاشرہ میں نئی روح پھونک دی، اسلام کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا، علم، فکر اور دین کے میدانوں میں ناقابل فراموش ورثہ چھوڑا، جو صدیوں تک ذہن وفکر کو