اسلوب سے بعد، اسرارِ شریعت کا فہم، تاریخ اسلام اور تاریخ عالم سے استدلال اور عبرت وموعظت کے پہلوؤں پر توجہ اور حقیقت بینی کے عناصر بہت نمایاں محسوس ہوتے ہیں ، تصنیفی وتالیفی کام ان کے نزدیک ذریعہ کسب اور وسیلہ معاش نہیں تھا، اس لئے مولانا کا قلم کہیں بھی انحراف کا شکار نہیں ہوا ہے، علمیت، نکتہ رسی، گہرائی وگیرئی عالم اسلام کے مشاکل ومسائل کا باریک بینی اور دور اندیشی سے جائزہ اور انہیں حل کرنے کی کوشش کے ساتھ پیغمبرانہ اخلاق اور سلف صالح کے زہد واستغناء اور نجابت وشرافت کے نمونے بھی مولانا کے ہاں خوب ملتے ہیں ۔
مولانا کی عربی وادبی عبارتوں میں بے پناہ جاذبیت اور سحر ہے، یہ امتیاز انہیں بلند پایہ افراد کو میسر آتا ہے جو بات کی تہہ اور حقیقت تک پہنچ جائیں ، یہ قرآن کے شغف وبرکت کا نتیجہ ہے، مولانا کی کوئی تحریر وتقریر قرآن وسنت کے حوالوں سے خالی نہیں ہے؛ بلکہ اس میں ایسی حلاوت وتاثیر ہوتی ہے جو معاصرین کے یہاں ناپید ہے، ساری تالیفات میں یہی جوش وجذبہ کارفرما ہے، اسی لئے پڑھنے والا مولانا کے پاکیزہ احساسات، دل کی درد مندی، عقل کی بلندی اور فکر کی سلامتی کا گرویدہ ہوتا چلا جاتا ہے، مشاہیر اہل کمال اور علماء کے تأثرات مولانا کی کتابوں کے سلسلہ میں اتنے زیادہ ہیں کہ وہ خود مستقل کتاب بن سکتے ہیں ، ان میں بعض تأثرات کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں ۔
حضرت مولانا کا یہ بہت بڑا امتیاز ہے کہ انہیں عربی، اُردو، فارسی اور انگریزی چاروں زبانوں پر عبور تھا، چناں چہ انگریزی مراجع ومصادر سے استفادہ کرنے میں مولانا کو کبھی کوئی دقت نہیں ہوئی اور ان کے حوالے مولانا کی کتابوں میں جابجا ملتے ہیں ، تصنیف کے علاوہ مولانا کو ترجمہ پر بھی بے مثال قدرت حاصل تھی، ما ذا خسر العالم، القادیانی والقادیانیۃ وغیرہ کتابوں کا اردو ترجمہ بھی مولانا نے خود ہی کیا ہے، اس کے علاوہ شاہ اسماعیل شہیدؒ کے رسالہ توحید کو مولانا نے عربی میں منتقل کیا ہے۔ علامہ اقبال کے متعدد قصائد کا عربی میں ترجمہ کیا، مجدد الف ثانیؒ کے بعض رسائل کا بھی عربی ترجمہ فرمایا، اس کے علاوہ ترجمہ کے سلسلہ میں