کے آئینہ میں ‘‘۔
۴؍۵؍۶؍اکتوبر ۱۹۹۷ء کو پٹنہ میں رابطہ کا اجلاس، پھر ۲۴-۲۵؍اکتوبر ۱۹۹۷ء ہی کو لاہور میں رابطہ کا تاریخی بین الاقوامی سیمینار بموضوع ’’حرمین شریفین کے سفرنامے جدید تحدیات کے تناظر میں ‘‘۔
جون ۱۹۹۸ء میں پونہ کا سیمینار بموضوع ’’تاریخ نویسی کا جائزہ ادب کے تناظر میں ‘‘۔
فروری ۱۹۹۹ء میں بنگلور میں ’’ادبِ اسلامی میں قصہ نگاری‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار۔
ان سارے سیمیناروں میں مولانا شریک رہے، ہندوستان کے علاوہ رابطہ کی شاخیں پاکستان، بنگلہ دیش، ملیشیا، انڈونیشیا، ترکی، ساؤتھ افریقہ، مغرب عربی کے ممالک، سعودیہ عربیہ، مصر، اردن، ہر جگہ قائم اور مصروفِ عمل ہیں ، دین کو ادب، فکر، سیاست، اقتصاد سے اور تمام عملی گوشوں سے الگ کرنے کی جو دشمنانہ سرگرمیاں جاری ہیں ان کا مقابلہ رابطہ ادب نے مولانا کی قیادت میں بڑی شدت سے کیا ہے، اور ادب کا اسلامی رجحان عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
حضرت مولانا علی میاں ؒ کا ایک بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ قول وعمل کے جامع تھے، جس ادب کے فروغ کا انہوں نے پیغام دیا اسے برت کر دکھایا، اسی جامعیت کو مولانا کے تلامذہ منتسبین اختیار کررہے ہیں ، اور یہی ذمہ داری ہر اس شخص پر عائد ہوتی ہے جس کا ادب وعلم سے کوئی بھی رشتہ ہو کہ علم کی اصل روح عمل ہے، ادب وعلم اگر جوہر عمل سے خالی ہوں تو وہ ان کھوکھلے درختوں کی طرح ہوجاتے ہیں جن کو اندر سے گھن لگ گیا ہو۔ شیخ سعدیؒ نے بھی اسی کو بیان کیا ہے:
علم چنداں کہ بیشتر خوانی
چوں عمل در تو نیست نادانی