کے عنوان سے متعدد مقالے پیش کئے گئے، حضرت مولانا نے اپنے خطاب میں ادب کی انقلاب آفرینی اور غیر معمولی تاثیر اور بقائے دوام کے لئے سوز وساز اور جذب وخلوص کو لازماً اختیار کرنے کی دعوت دی۔ مولانا نے فرمایا:
’’یہ بھی تاریخ کا عجیب معمہ ہے کہ جس طبقہ کو سب سے زیادہ حقیقت شناس، فراخ دل اور متوازن ہونا چاہئے تھا، اسی طبقہ نے کوتاہ نظری اور تنگ دلی کا مظاہرہ کرکے خود کو حرف ونقش میں قید کرلیا ہے، جن لوگوں کا قلب وجگر جمال وکمال سے آراستہ ہونا چاہئے تھا، انہوں نے ہی ادب کو چند محدود اصطلاحات اور مقاصد تک محدود کرلیا ہے۔ اقبال نے صحیح کہا ہے:
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر‘‘
(کاروانِ زندگی ۵؍۵۴)
اگست ۱۹۹۳ء میں استنبول میں رابطہ کا ایک اجلاس ہوا، جس میں مولانا نے عملی طور پر ادبِ اسلامی کا نمونہ بننے کی دعوت دی، اس کے علاوہ جو اہم سیمینار رابطہ ادبِ اسلامی کے زیر اہتمام ہوئے، وہ مندرجہ ذیل ہیں :
اپریل ۱۹۹۴ء میں ’’حدیث نبوی کے ادبی مقام وامتیازات‘‘ کے عنوان سے جامعہ سلفیہ بنارس کا سیمینار۔
اپریل ۱۹۹۵ء میں ’’ادب میں سفر ناموں کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر اورنگ آباد میں سیمینار۔
نومبر ۱۹۹۵ء میں اعظم گڈھ میں دارالمصنفین کی دعوت پر رابطہ کا اجلاس، بموضوع ’’سوانحی ادب وتذکرہ نگاری‘‘۔
اگست ۱۹۹۶ء میں ترکی میں رابطہ کا عظیم سیمینار اور اسی کے تحت حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ایک اعزازی اجلاس۔
نومبر ۱۹۹۶ء میں حیدرآباد میں رابطہ کا مذکرۂ علمی بموضوع ’’ملفوظات ومواعظ ادب