لئے استعمال کرنے، عربی ادب وانشاء اور تنقید وتاریخ ادب کو صحیح رخ دینے، جدید نسل کو صالح غذا پہنچانے کے لئے ایک نیا ذخیرۂ کتب اور ایک جدید مکتب خیال پیدا کرنے اور منتشر الذہن، ضعیف العقیدہ اور غیرجانب دار ادباء کی اجارہ داری ختم کرنے کی آواز اٹھائی گئی، اسی میں رابطہ ادب اسلامی کاخاکہ سامنے آیا، جو ۱۹۸۴ء کے اخیر میں اس کی مجلس عاملہ کا پہلا مشاورتی اجتماع ندوۃ العلماء میں منعقد ہوا، جو بے حد کامیاب رہا۔ جنوری ۱۹۸۶ء میں رابطہ ادب کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں رابطہ کے دستور اساسی کو آخری شکل دی گئی، تنظیمی انتخابات ہوئے اور حضرت مولانا کو تاحیات صدر منتخب کیا گیا، اس موقع پر عالم عرب کے بعض ادباء وشعراء موجود تھے جن میں معروف شاعر عمر بہاء الامیری قابل ذکر ہیں ۔
ہندوستان کی متعدد یونیورسٹیوں اور اداروں کے ممتاز مفکرین وعلماء بھی شریک ہوئے، مولانا نے اپنا مقالہ ’’ہندوستان کا اسلامی ادبی اسکول‘‘ کے عنوان سے پیش کیا، جس میں خصوصیت سے یہ ذکر کیا گیا کہ عرب ممالک اور دیگر اسلامی ملکوں میں بدقسمتی سے دینی عنصر ادب کے میدان سے دور ہوگیا ہے؛ لیکن ہندوستان کا اُردو ادب اس سے بڑی حد تک مستثنیٰ ہے، مولانا نے اپنے مقالہ میں علامہ شبلی نعمانی، حالی، محمد علی جوہر، اقبال اور دیگر ادباء وشعراء کے تذکرے اور ان کی اسلامیت کی طرف اشارے بھی کئے۔ جون ۱۹۸۶ء میں رابطہ کا عالمی اجلاس استنبول (ترکی) میں منعقد ہوا، مولانا نے اپنے خطاب میں ترکی کے اسلامی ادب میں انقلابی اور قائدانہ کردار ادا کرنے کے سلسلہ میں مولانا جلال الدین رومی اور ان کی مثنوی کی تاثیر کا ذکر کیا، دوسرے خطاب میں مولانا نے اقبال کی معرکۃ الآراء نظم ’’طلوع اسلام‘‘ کو موضوع بناکر گفتگو کی اور اقبال کا یہ شعر پڑھا:
عطا مؤمن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی
فروری ۱۹۸۷ء میں ’’اسلامی ادب اور مغربی ادبی تحریکات‘‘ کے عنوان سے رابطہ