لگارہے ہیں ، ہم مسلمانوں کے بلند پایہ ادباء واہل کمال کی پیروی کر رہے ہیں ۔ اس موضوع پر سب سے پہلے جس نے لکھا اور توجہ دلائی وہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ذاتِ گرامی ہے، یہ کام مولانا نے دمشق کی ’’المجمع العلمی‘‘ کی رکنیت کے بعد کیا، آپ نے ایک مقالہ پیش کیا جس میں ایک اسلامی ادب قائم کرنے اور اس پر توجہ دینے کی دعوت دی، اس طرح مولانا اس کام کے سب سے پہلے داعی اور محرک ہیں ، مولانا کے بعد سید قطب شہید، محمد قطب، نجیب کیلانی، عمادالدین خلیل وغیرہ نے بھی اس کام کو آگے بڑھایا‘‘۔
(نحو مذہب اسلامی فی الادب والنقد۹۴-۹۵)
مئی ۱۹۸۴ء میں مکۃ المکرمہ میں مولانا سے سعودی عرب کے ممتاز علماء کا ایک وفد ملا، جس میں ڈاکٹر عبدالباسط بدر، استاذ حیدر غدیر، ڈاکٹر عبدالقدوس ابوصالح اساتذۂ جامعۃ الامام محمد بن سعود ریاض وجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ شامل تھے۔ ان حضرات نے مولانا سے رابطہ ادب اسلامی کے اغراض ومقاصد کا ذکر کیا، اس کے آئین کا مسودہ پیش کیا اور مولانا سے اس کی سربراہی قبول کرنے اور اسے بین الاقوامی تنظیم کی حیثیت سے قائم کرنے کی اجازت چاہی، یہ بھی طے ہوا کہ عرب دانشوروں کی ایک مجلس بنادی جائے اور عالم عربی کے تمام علاقوں سے ادباء واہل قلم کو شریک کیا جائے، یہ بھی طے ہوا کہ اس کا ہیڈ آفس ندوۃ العلماء لکھنؤ ہوگا، نائب صدر ڈاکٹر عبدالقدوس ابوصالح اور جنرل سکریٹری مولانا سید محمد رابع حسنی مدظلہ ہوں گے، اس سے پہلے اپریل ۱۹۸۱ء میں ایک بین الاقوامی سیمینار ’’مذاکرۂ ادبیات اسلامی‘‘ کے عنوان سے ندوۃ العلماء میں ہوچکا تھا، جس میں اہم موضوع ’’عربی ادب میں خصوصاً اور دوسری زبانوں کی ادبیات میں اسلامی عناصر کی تلاش‘‘ تھا، یہ دعوت وتحریک بہت مقبول ہوئی، علماء وادباء عرب اور مفکرین برصغیر کا ایک ممتاز ومؤقر وفد بڑی تعداد میں شریک ہوا، مولانا نے اس موقع پر جو خطاب کیا وہ بے حد فکر انگیز تھا، اس سیمینار میں ادب کے راستہ سے آنے والے الحاد وتشکیک اور فحاشی وعریانیت کے سیلاب کی روک تھام پر زور دیا گیا جو مصر میں خصوصاً بڑی قوت سے بہہ رہا تھا، اور ادب کو تخریب کے بجائے تعمیر کے