مکاتیب وخطوط اور قصوں کہانیوں کے تقلیدی ادب کی تدوین سے بہت پہلے ہی حدیث وسیرت کی کتابوں میں یہ فطری اور سحر انگیز ادب مدون ہوچکا تھا؛ لیکن ادب کے مؤرخین اور تحقیق وریسرچ کا کام کرنے والوں نے اپنی ساری توجہ تقلیدی اور روایتی ادب پر مرکوز کردی، وہ اسی زنداں کے اسیر اور اسی لکیر کے فقیر رہے جو استاذِ اول نے کھینچ دی تھی، اس طرح اُس ادب پر پردہ پڑا رہا جس سے عربی زبان کی صلاحیت وبرتری اور اس کی گہرائی ظاہر ہوتی ہے، اور اہل زبان کا کمالِ فن ’’ملکہ‘‘ اور زبان پر ان کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے، اور درحقیقت وہی ادب کی اولین اور حقیقی تربیت گاہ ہے۔ اوپر ادبِ نبوی کا ذکر آیا ہے کہ وہ مولانا کی توجہ کا مرکز شروع سے رہا ہے اور اس موضوع پر مولانا کے مقالات بھی ہیں ۔ ۱۹۵۷ء میں دمشق کی معروف علمی اکیڈمی ’’المجمع العلمی‘‘ نے مولانا کو رکن منتخب کیا تو مولانا سے مضمون کا مطالبہ کیا، مولانا نے ’’عربی زبان کا کتب خانہ از سر نو کھنگالنے کا محتاج ہے‘‘ کے عنوان سے عربی ادب اور اس کی تاریخ کے دوبارہ جائزہ اور ان ہیرے جواہرات کو سامنے لانے کی ضرورت پر مضمون لکھا جو خزف ریزوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں ، مولانا ادب برائے ادب ’’الفن للفن‘‘ (Anb ism) کے داعی وقائل کبھی نہیں رہے، انہوں نے ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کا ہمیشہ برملا اعلان کیا، مولانا نے ادب کو دعوتِ اسلامی کا سب سے اہم وسیلہ سمجھا اور عقیدہ وجوش، جذبہ واخلاص اور صدق کی بنیادوں پر ادب اسلامی کے فروغ ورواج کی آواز سب سے پہلے ۱۹۵۷ء میں لگائی، یہ وہ آواز تھی جو رفتہ رفتہ تحریک بنی اور پھر عالمی رابطہ ادبِ اسلامی کی شکل میں سامنے آئی۔
رابطہ ادبِ اسلامی کا قیام مشہور ادیب ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا کی تحریک ودعوت پر منظم شکل میں سامنے آیا، پاشا صاحب نے اپنی معروف کتاب: ’’نحو مذہب اسلامی فی الأدب والنقد‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’ادب میں ایک اسلامی مدرسہ بنانے اور قائم کرنے کی صدا سب سے پہلے ہم نہیں