(۵) سوانح نگار یہ حقیقت بھی ذہن نشیں رکھے کہ الفاظ کا ایک درجہ حرارت (Temperature) ہوتا ہے، اس کی پوری رعایت کی جائے اور ’’أنزلوا الناس منازلہم‘‘ کے اصول پر پورا عمل ہو، افراط وتفریط اور غلو ومبالغہ سے ذرا بھی کام نہ لیا جائے۔
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ شخصیات پر کچھ لکھنا آسان کام نہیں جوئے شیر لانے اور پتہ مارنے کے مرادف ہے، مولانا کو چوں کہ خود اس کا تجربہ تھا اور وہ اس راستہ سے بڑی احتیاط اور خوش اسلوبی سے گذرے تھے، سوانح نگاری ان کی تصنیفات میں بہت نمایاں ہے، تاریخ نگاری اور تاریخ سے شغف ان کی زندگی کا روشن باب ہے، اس لئے مولانا کے یہ تجربات اور اصول بڑے کارآمد اور بنیادی ہیں ۔
چھٹی قسم مقدموں کے ادب کی ہے، کسی معاصر مصنف یا بلند پایہ عالم یا رفیق کی تصنیف پر مقدمہ لکھنا صرف ایک تقلیدی عمل نہیں ہے، جسے رواداری اور مروّت کے تقاضے نبھانے یا مؤلف وناشر کی دل جوئی کرنے اور خواہش پوری کرکے خوش کرنے کے لئے انجام دیا جائے؛ بلکہ یہ تو ایک گواہی ہے جس کے آداب، احکام اور ذمہ داریاں ہیں ، یہ شہادت اگر ٹھیک ٹھیک نہ دی جائے، کتاب کا علمی جائزہ نہ لیا جائے، تو اس سے کتاب کی علمی قدر وقیمت گھٹ جاتی ہے، مقدمہ محض تعریف اور مدح سرائی کا نام نہیں ہے؛ بلکہ اس میں کتاب کے موضوعات ومقاصد، مؤلف کے مقام وحالات، اس کی علمی وعقلی نشو نما، تالیف کے محرکات واسباب کا ذکر اور مؤلف کی کامیابی وناکامی کا تفصیلی جائزہ سب کچھ ہونا چاہئے، اس لئے مقدمہ نگار کو کتاب کے موضوع اور مؤلف سے تعلق ہونا چاہئے؛ تاکہ اسے مؤلف کے عقلی، علمی، فکری وجذباتی نشونما، موضوع کے ساتھ اس کے تعلق وانصاف اور محنت وکامیابی کا اندازہ ہوسکے، اس سے واقف ہوئے بغیر مقدمہ نگاری بامقصد اور منصفانہ نہیں ہوسکتی۔ حضرت مولانا نے جو قیمتی مقدمات تحریر فرمائے ہیں ان میں یہی اصول اپنایا ہے اور اسی کی دعوت بھی دی ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اصنافِ ادب (جن میں شعر ونظم کا خصوصاً استثناء ہے) میں بھی