’’مذکرات سائع فی الشرق العربی‘‘ میں یہ نہج بے حد نمایاں ہے جس سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ ادیب اپنے تبصرہ وتجزیہ کے ذریعہ سفر نامہ کو مؤثر ترین بناسکتا ہے اور اس میں جان ڈال سکتا ہے۔ ایک سفر نامہ کی ادبی حیثیت اسی وقت مسلم ہوسکتی ہے کہ جب اس میں سیاح کے دل کی دھڑکنیں اور ضمیر کی سرگوشیاں محسوس ہوں اور مشاہدات وواقعات کے ذکر کے ساتھ نفسیاتی اثرات، ردِ عمل، افکار وخیالات بھی بے کم وکاست، کسی احتیاط وتکلف کی رعایت کے بغیر مذکور ہوں ، یہی وہ عنصر ہے جو سفرنامہ کو ادب بناتا ہے اور اسی کی رعایت ودعوت حضرت مولانا علی میاں ؒ کے ہاں ملتی ہے۔ (مقدمہ: مذکرات سائح فی الشرق العربی)
پانچویں قسم سیروسوانح کا ادب ہے، سیر وسوانح ایک مستقل فن ہے جس کی کچھ شرطیں مولانا نے بیان کی ہیں ، ہم اس کا مختصراً ذکر کرتے ہیں :
(۱) سیرت وسوانح کا کام شروع کرتے وقت اس کام کے لئے کوئی اہم محرک وداعی (مثلاً قلبی رغبت، ضمیر کی آواز، جذبۂ دفاع، اعترافِ حق، محبوبیت، فضل وکمال سے متأثر ہونا وغیرہ) ضرور موجود ہونا چاہئے، یہ محرکات نہ ہوں تو تحریر بے وزن اور بے قیمت ہوجاتی ہے۔
(۲) صاحب سوانح کی صحبت میں رہ کر یا واقعات واخبار کے علم اور غیر جانب دارانہ مطالعہ کے ذریعہ اس سے گہری اور ناقدانہ واقفیت بھی اہم شرط ہے، سوانح نگار اور صاحب سوانح کے درمیان کوئی نہ کوئی تعلق بہرحال ضروری ہے، جس کی بنیاد پر سوانح نگار صاحب سوانح کی خصوصیات سے واقف ہو اور اس کے حالات وواقعات کا امانت داری کے ساتھ جائزہ لے۔
(۳) الفاظ ومعلومات کا ایسا خزانہ بھی ہونا لازمی ہے جس کی مدد سے سوانح نگار اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح بیان کرنے پر قادر ہوسکے۔
(۴) احساسِ ذمہ داری وامانت ودیانت اور صاحب سوانح کی شخصیت کی قدر وقیمت، قدوقامت اور مرتبہ ومنزلت کے اظہار کی پوری قدرت بھی ضروری ہے۔