اے سب دینے والوں سے اچھے۔
مولانا لکھتے ہیں :
’’کیا خدا کی عظمت وکبریائی اور اپنی ناتوانی وبے نوائی اور فقر واحتیاج، عجز ومسکنت کے اظہار واقرار کے لئے اور رحمتِ خداوندی کو جنبش میں لانے کے لئے ان سے زیادہ پرتاثیر، پرخلوص اور دل نشین الفاظ انسانی کلام میں مل سکتے ہیں ؟ اور اپنے دل کی کیفیت اور عجزومسکنت کا نقشہ الفاظ میں اس سے بہتر کھینچا جاسکتا ہے؟ یہ الفاظ تو دریائے رحمت میں تلاطم پیدا کرنے کے لئے کافی ہیں ، آج بھی ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے دل امڈآتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اور رحمتِ خداوندی صاف متوجہ معلوم ہوتی ہے‘‘۔ (دعائے خیر البشر ۱۸-۱۹، از: مولانا سید ابوالحسن علی ندوی)
اس انداز میں مولانا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ومناجات کا ذکر کیا ہے اور اس کے ادبی مقام کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، واقعہ ہے کہ ادب میں صداقت وخلوص کا عنصر حقیقی روح پیدا کرتا اور اسے بقائے دوام بخشتا ہے، اور یہ عنصر جس طرح دعا ومناجات میں ملتا ہے کسی اور صنف ادب میں نہیں ملتا۔
چوتھی قسم سفرناموں کے ادب کی ہے، مولانا نے اس موضوع پر جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ ان کے ذاتی تجربات کا نچوڑ ہے، مولانا نے مشرق ومغرب کے متعدد اسفار کئے ہیں ، جن کی تفصیلات ان کی خود نوشت سوانح حیات: کاروانِ زندگی ’’فی مسیرۃ الحیاۃ‘‘ اور ان کے سفر ناموں ’’مذکرات سائح فی الشرق العربی‘‘ (شرق اوسط کی ڈائری) ’’من نہر کابل الی نہر الیرموک‘‘ (دریائے کابل سے دریائے یرموک تک) اور ’’اسبوعان فی ترکیا‘‘ (دو ہفتے ترکی میں ) وغیرہ میں ملتی ہیں ۔
ادب کی اس صنف میں مولانا نے زائر وسیاح کو معاشرہ اور سماج کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے، واقعات ومشاہدات کا اپنی قلبی واردات وافکار اور احساسات وجذبات نیز خیالات کی روشنی میں مخلصانہ اور ہوش مندانہ تجزیہ کرنے کی دعوت دی ہے، مولانا کی تصنیف