یہ سلسلہ بے حد مقبول ہوا، اس کے دوسرے ایڈیشن پر مشہور ادیب ومجاہد سید قطب شہید کا مقدمہ شائع ہوا جو بے حد مؤثر ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ:
’’میں نے کثرت سے وہ کتابیں پڑھی ہیں جو بچوں کے لئے لکھی گئی ہیں اور جن میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے حکایات وقصص بھی شامل ہیں ، خود ایک سلسلہ کتب کی ترتیب میں میں نے شرکت کی ہے، جو ’’القصص الدینیۃ للاطفال‘‘ کے نام سے مصر میں مرتب ہوا، اور جس کے لئے مواد قرآنِ مجید سے اخذ کیا گیا تھا؛ لیکن میں تکلف اور خوشامد کے بغیر اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ ’’قصص النبیین للاطفال‘‘ کے مصنف کا کام (جس کا ایک نمونہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں نظر آتا ہے) ہمارے وضع کئے ہوئے سلسلہ سے زیادہ کامیاب اور مکمل ہے؛ اس لئے کہ اس میں ایسی لطیف رہنمائیاں ، قصہ کے مقاصد پر روشنی ڈالنے والی تشریحات اور بین السطور میں ایسے اشارات آگئے ہیں جو بیش قیمت ایمانی حقائق کی نقاب کشائی کرتے ہیں ‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۲۱۸)
مولانا عبدالماجد دریاآبادیؒ نے اس سلسلہ کو بچوں کا علم کلام قرار دیا ہے۔ مولانا مسعود عالم ندوی نے بھی لکھا ہے کہ:
’’اس کتاب میں زبان اور دین کو اس طرح ایک دوسرے سے پیوست کردیا ہے جیسے گوشت اور ناخن‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۲۱۷)
یہ کتاب عالم عربی کے متعدد جامعات میں داخل ہوئی، برصغیر کے مدارس وجامعات نے دل کھول کر اس کا استقبال کیا اور داخل درس کیا؛ لیکن وہی طبقہ یہاں بھی مولانا کی تکلیف کا سبب بنا۔ مولانا کی زبان میں :
’’اگر مصنف کو اپنی کسی کتاب کے داخل نصاب نہ ہونے پر استعجاب اور دوستانہ شکوہ ہوسکتا ہے، تو اس کتاب پہ کہ وہ زبان آموزی اور دینی تلقین کا بیک وقت کام کرتی ہے؛ لیکن جماعتی اور مدرسی عصبیت بڑے بڑے حقائق پر پردہ ڈال دیتی ہے، تجربہ سے معلوم ہوا کہ اس بارے میں جدید تعلیمی ادارے اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ فراغ دل اور وسیع النظر واقع ہوا ہے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۲۱۸)