وبنگلہ دیش، عرب ممالک اور بعض مغربی ممالک میں بھی یہ داخل درس ہوئی؛ لیکن اس کتاب پر سب سے زیادہ جفا کس ستمگر نے کی، یہ مولانا کی زبان میں پڑھئے:
’’البتہ اس کو ہمارے قدیم مدارس میں بڑی مشکل سے بار ملا، اور ملا بھی تو جلد اس کو چھٹی دے دی گئی، کہ ان حلقوں کا رد عمل ’’انظر الی ما قال ولا تنظر الی من قال‘‘ کے بجائے ’’انظر الیٰ من قال ولا تنظر الی ما قال‘‘ پر ہے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۲۱۲)
مولانا نے اس سلسلہ میں دوسری کتاب ’’القراء ۃ الراشدۃ‘‘ مرتب کی، جو تین حصوں میں منظر عام پر آئی اور بے حد مقبول ہوئی، یہ اصلاً مصری ریڈر ’’القراء ۃ الرشیدۃ‘‘ کا متبادل ہے۔ مولانا نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’کتاب میں اس کا التزام کیا گیا کہ حتی الامکان کوئی سبق دینی موعظت سے خالی نہ ہو اور آخر میں اس کا کوئی اخلاقی ودینی نتیجہ نکلتا ہو یا کسی دینی تعلیم یا آداب کی طرف رہبری ہوتی ہو؛ لیکن اس طرح کہ طالب علم کو محسوس نہ ہو کہ کوئی چیز اوپر سے یا باہر سے لائی جارہی ہے، یا اس کو کوئی خارجی انجکشن دیا جارہا ہے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۲۱۴)
اس سلسلہ کا تیسرا اور سب سے اہم سلسلہ ’’قصص النبیین‘‘ کا ہے، جو کامل کیلانی کی حکایات الاطفال کا نعم البدل ہے، حکایات الاطفال میں تصویروں کے ساتھ لغو قصوں کا طومار ہے، جو اخلاقی لحاظ سے کسی بھی طرح مفید نہیں ہے، اس کام کی طرف مولانا کو مولانا عبدالماجد دریاآبادیؒ نے متوجہ کیا تھا، اس کتاب میں مولانا نے چند امور کا التزام کیا ہے، ایک تو یہ کہ الفاظ کا ذخیرہ (Vocabulary) کم سے کم ہو؛ لیکن اعادہ وتکرار سے اُسے ذہن میں نقش کردیا جائے، دوسرے یہ کہ کتاب کتاب قرآن کی زبان میں لکھی جائے اور آیاتِ قرآنی جگہ جگہ نگینہ کی طرح جڑدی جائیں ۔ تیسرے یہ کہ اسلام کے بنیادی عقائد (توحید، ورسالت اور معاد) کی تلقین وتعلیم ضمناً ہوجائے۔ چوتھے یہ کہ قصوں کو پھیلاکر لکھا جائے اور اُن میں ایسی رہنمائی کا سامان ہو کہ بچوں کے دلوں میں کفر وشرک کی نفرت، ایمان وتوحید کی محبت اور انبیاء علیہم السلام کی عظمت راسخ ہوجائے اور یہ سب غیرشعوری طریقہ پر ہو۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۲۱۷۰۲۱۶ مختصراً)