’’القراء ۃ الرشیدۃ‘‘ اور کامل کیلانی کی ’’حکایات الاطفال‘‘ وغیرہ داخل درس کی گئیں ؛ لیکن ایک بڑی خامی ان میں یہ تھی کہ یہ اگرچہ مبتدی طلبہ کی نفسیات اور زبان کی تعلیم کے جدید اصولوں کے مطابق مرتب کی گئی تھیں ، مگر ان میں کوئی دینی اور اخلاقی تعلیم بالکل نہ تھی اور ہر صفحہ پر تصویریں بھی تھیں ۔
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے دل میں نئے نصاب کی ترتیب کا داعیہ بڑی تیزی سے پیدا ہوا، اس کام کا آغاز ’’مختارات من ادب العرب‘‘ کی ترتیب سے ہوا، جو قرنِ اول سے لے کر عصر حاضر تک کے عربی نثر وادب کے اعلیٰ نمونوں پر مشتمل ہونے کے ساتھ سجع وقافیہ، تصنع اور تکلف سے آزاد اور صالح مقاصد اور صحت مند خیالات کی آئینہ دار بھی ثابت ہوئی، یہ کتاب ۱۹۴۰ء میں مکمل ہوئی، اور ۱۹۴۲ء میں پہلی بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی، یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے، یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور دمشق یونیورسٹی کے کلیۃ الشریعۃ میں ادبِ عربی کے نصاب میں داخل کی گئی، مشہور ادیب علی طنطاوی نے اس کتاب کے بارے میں اپنے تأثراث یوں ظاہر کئے:
’’اگر کسی ادیب کے ذوق کی دلیل اس کا انتخاب ہے، تو قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کچھ عرصہ ہوا، ادبی منتخبات اور نمونوں کے مجموعوں کو جمع کیا؛ تاکہ اُن میں سے کسی کو ثانویات شرعیہ کے طلبہ کے سامنے رکھیں ، ہماری کمیٹی کے ممبران نے (جو سب ادباء میں سے تھے) علیحدہ علیحدہ تلاش وجستجو شروع کی، اور اس موضوع کی کتابوں کا جائزہ لیا، آخر میں ہم سب متفقہ طور پر اس نتیجہ پر پہنچے کہ درسی منتخبات کے مجموعوں میں سب سے بہتر ابوالحسن علی ندوی کا مرتب کردہ مجموعۂ مختارات ہے جو زبان کی اصناف اور ادب کے متنوع نمونوں کا سب سے جامع مجموعہ ہے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۲۱۱)
مختارات زیادہ تر جدید حلقوں اور یونیورسٹیوں کے ایم اے عربی کے کورس میں داخل ہوئی، جن میں علی گڈھ، الٰہ آباد، حیدرآباد، مدراس، دہلی اور لکھنؤ کی یونیورسٹیاں نمایاں ہیں ، سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے بھی اس کو اپنے یہاں کے نصاب میں داخل کیا، پاکستان