کی ’’کلیلۃ دمنۃ‘‘ عرب صاحب کے نزدیک بہت معیاری اور معرکۃ الآراء کتاب تھی، اس کے پڑھانے کا بھی عجیب طرز تھا، مولانا کو دن بھر محنت کرکے پورا سبق تیار کرنا پھر آموختہ کی طرح سنانا پڑتا تھا، تصحیح عبارت، نحوی وصرفی وجوہ سے واقفیت، سوالوں کا جواب اور عبارت کا پورا مفہوم سمجھنا ضروری ہوتا، انشاء کی مشق بھی ہوتی تھی، عربی میں بولنا بھی لازم کردیا گیا تھا، اُردو بولنے پر جرمانہ عائد ہوتا تھا، نحو کے ابتدائی مسائل کے لئے ابوالحسن الضریر کی جامع ومختصر کتاب ’’الضریری‘‘ بھی عرب صاحب نے پڑھائی، یہ اندازِ تعلیم مولانا کی استعداد اور قوتِ مطالعہ کی اصل کلید تھا، جس کی مدد سے ہر قفل کھلتا چلا جاتا تھا، ’’کلیلۃ دمنۃ‘‘ کے بعد ’’مجموعۃ من النظم والنثر‘‘ شروع ہوئی، عرب صاحب نے نظم کا حصہ پہلے پڑھایا اور اسے زبانی یاد کرایا، مولانا لکھتے ہیں کہ:
’’وہ زبانی یاد کیا ہوا حصہ اگرچہ فراموش ہوگیا؛ لیکن حافظہ اور ذوق میں وہ اس طرح تحلیل ہوگیا تھا کہ اس کے اجزاء واثرات جزئِ بدن ہوگئے اور تحریر وانشاء میں اس کا رنگ نمایاں ہوا، عرب صاحب کے طریقۂ تعلیم کی یہ بھی خوبی تھی کہ وہ اچھے الفاظ، تعبیرات ومحاورات کا اس طرح چٹخارا لیتے، ان کی لذت وحلاوت کا اس طرح اظہار کرتے کہ وہ ہم لوگوں کے دل ودماغ پر مرتسم ہوجاتے، اور ہم سمجھتے کہ ان الفاظ کا لطف لینا اور ان کی قدر ضروری ہے۔ دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ ہم لوگوں کے ذہن پر یہ اثر قائم کرتے کہ یہ الفاظ وتعبیرات کسی کی ذاتی ملکیت نہیں اور نہ یہ سربمہر خزانہ ہیں ، یہ ہر اُس شخص کی ملکیت ہے جو اس کو صحیح طریقہ پر استعمال کرسکے، بعض اوقات انہوں نے ہماری انشاء کی کاپیوں میں کسی محاورہ، ضرب المثل یا جملہ کے صحیح استعمال پر اپنی مسرت کا اظہار کیا، جیسے ہم لوگوں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو، اور بعض اوقات انہوں نے اس پر انعام بھی عطا کیا ہو‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۲۱۶)
ادب کے متوسطات کی تعلیم کے بعد عرب صاحب نے اپنے دینی ذوق کے پیش نظر قرآن کا وہ حصہ پڑھانا شروع کیا، جس کا مرکزی مضمون توحید ہے، سورۃ الزمر اور اس کے بعد کی چند سورتوں کا درس دیا، صحیح مسلم کی کتاب المغازی بھی شروع کرائی، قرآن وحدیث