(۴) اسلامی وتجدید تحریکات اور اسلامی علوم وفنون ہندوستان میں ۔ اس شعبہ کو مولانا نے بڑی اہمیت دی اور وقیع جامع، اور علمی نصاب تجویز کیا، یہ شعبہ اب تک سرگرم عمل ہے، مولانا نے اس میں جو قیمتی محاضرات (لکچرس) دئے تھے وہ روائع من ادب الدعوۃ (تبلیغ ودعوت کا معجزانہ اسلوب)کے نام سے طبع ہوچکے ہیں ۔
دنیا کے کونہ کونہ تک ندوہ کا تعارف، ایک کثیر اور بھاری تعداد کی ہر سال فراغت دینی ودعوتی ماحول کامیاب تعمیری ترقیات، مختلف شعبوں کا قیام، اور ان کو فعال بنانے کی پوری کوشش، غیر ملکی طلبہ کی کثرت اور ان کے لئے الگ کورس کا نظام، اخلاص اور علمی مہارت واختصاص پیدا کرنے کی کوشش، ذہنی، اعتقادی، فکری واخلاقی ارتداد وانتشار کے مقابلہ کے لئے مجلس تحقیقات ونشریات کی تاسیس، متعدد موضوعات پر کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد، مکتبہ میں کتابوں اور مراجع کا بے انتہا اضافہ، طلبہ واساتذہ کے لئے تمام تر سہولیات، (جو اس ناچیز کے علم میں ہندوستان کے کسی اور دینی ادارہ میں بڑی مشکل سے مل سکتی ہیں ) مولانا کے دورِ نظامت کی کچھ خاص جھلکیاں ہیں ۔
حضرت مولانا تحریک ندوہ کے سب سے بڑے ترجمان ثابت ہوئے، عرب وعجم جہاں جہاں گئے اپنا یہی بیام پہنچایا، جو بڑا مؤثر ثابت ہوا۔
اس کے لئے مولانا نے مستقل رسالے تحریر فرمائے، مضامین ومقالات تحریر کئے، اور پوری وضاحت سے ندوہ کا تعارف کرایا، اور اس کے مقاصد واضح کئے۔
اس ناچیز کو خود ندوہ میں دو سال کا عرصہ گذارنے اور مولانا سے تلمذ کا شرف نصیب ہوا ہے، اس عرصہ میں مولانا کو بسا اوقات بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، اور ہر بار یہی محسوس ہوا کہ ندوہ کا پیغام وفکر مولانا کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے ہے، ان کے دل میں ندوہ کا عشق بسا ہوا ہے، اور ان کا ہر عمل اور ہر ادا اسی جامعیت واعتدال اور توازن کے جوہر سے