۱۹۹۴ء میں جب حکومت ہند کے اشارے پر دہلی کے انٹلی جنس بیورو، مقامی پولیس اور پی اے سی نے رات کے سناٹے میں ندوہ پر چھاپہ مارا اور بے گناہ طلبہ کو گرفتار کیا، فائرنگ کی، تو اس کے رد عمل میں ملک وبیرونِ ملک ایک کہرام مچ گیا، اور ہر طرف سے صدائے مذمت واحتجاج بلند ہوئی، اور اس طرح کی باتیں کہی جانے لگیں کہ اگر مولانا علی میاں کے ندوہ کو ’’آئی ایس آئی‘‘ کا اڈہ قرار دیا جاسکتا ہے، تو پھر اب ہندوستان کا کوئی مدرسہ اور مسلم ادارہ محفوظ نہیں ، بہرحال حکومت کو بڑی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ دراصل ہندوپأک اور عالم عرب کے افراد کے مولانا سے قلبی تعلق اور لگاؤ نیز دارالعلوم ندوۃ العلماء سے گہرے ربط کی واضح دلیل تھی۔
عالم اسلام میں خصوصاً مشرق اسلامی میں یوروپ کی مغربی تہذیب کے راستہ سے جس فکری، نظریاتی، اعتقادی اور تہذیبی ارتداد نے پورے زورشور سے اپنے قدم جمائے اور مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقوں کو اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حضرت مولانا کے دل میں ایک مستقل مجلس قائم کرنے کا احساس پیدا ہوا، مئی ۱۹۵۹ء میں ندوہ کی احاطہ میں مجلس تحقیقات ونشریاتِ اسلام (Acadmy of Islamic Risearch and Pub Iications)کا قیام عمل میں آیا، جس کے زیر اہتمام اردو، انگریزی، عربی اور ہندی میں اب تک تین سو سے زائد مطبوعات شائع ہوچکی ہیں ، اس تحتی براعظم میں انگریزی کی اتنی اچھی اسلامی کتابیں اور لٹریچرس کسی اور ادارہ نے شائع نہیں کئے۔
اس کے علاوہ مولانا نے ندوۃ العلماء میں ’’المعہد الاسلام للدعوۃ والفکر الاسلامی‘‘ کے قیام کا فیصلہ فرمایا، یہ معہد چار شعبوں میں تقسیم کیا گیا:
(۱) ممالکِ عربیہ (شرق اوسط) میں علمی وفکری طور پر دینی وایمانی دعوت
(۲) مذاہب کا تقابلی مطالعہ
(۳) حکمتِ ولی اللہی