شدیم خاک و لیکن ببوئے تربتِ ما
تواں شناخت کزیں خاک مرد خیزد
مولانا نے بیسویں صدی کے آغاز میں جب اپنی آنکھیں کھولی تھیں ، اس وقت خلافت عثمانیہ کا سقوط اور زوال اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور وقرار بنا ہوا تھأ، اب ان کے انتقال کے حادثۂ فاجعہ کے بعد بھی عالمی پیمانہ پر اسلام دشمن طاقتیں ہر طرح سے اسلام کو کچلنے اور دبنانے کے درپے ہیں اور اسی مقصد کے لئے آئے دن نئے نئے مسائل پیدا کررہی ہیں اور مشکلات کھڑی کررہی ہیں ، ایسے میں مولانا کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے، مگر…
یک حرف کاشکیست کہ صد جا نوشتہ ایم۔ دل سے حسرت بن کر یہ آواز نکلتی ہے:
ہیہات لا یأتی الزمان بمثلہ
إن الزمان بمثلہ لبخیل
اصحابِ دعوت وعزیمت کی جب بھی فہرست تیار ہوگی، مولانا اس میں ہمیشہ نمایاں مقام پر نظر آئیں گے، دیگر ادباء علماء اور مفکرین کے برعکس مولانا کے گراں قدر افکار سے استفادہ کرنے والے بے شمار تلامذہ کا ایک وسیع حلقہ ہے جو مولانا کے افکار کی ترویج واشاعت میں ہمہ تن منہمک ہے، تلامذہ ومتعلقین کا یہ حلقہ اور خود مولانا کی بلند پایہ تالیفات ہمیشہ ان کے لئے صدقۂ جاریہ ثابت ہوتی رہیں گی، الن کا پیام فکر وعمل ہمیشہ حیات بخش، مشعل راہ اور منارۂ نور ثابت ہوتا رہے گا، ان کی زندگی کے عملی، دعوتی اور تربیتی تینوں گوشے ہمیشہ رہنمائی کا کام کرتے رہیں گے۔
مولانا جیسے اصحاب دعوت وعزمیت کے پیغامِ فکر وعمل کی ترجمانی اور عکاسی علامہ اقبالؒ کے اس قطعہ سے بڑھ کر کسی اور لفظ میں نہیں کی جاسکتی: