کے لئے مولانا نے بے حد کوششیں کیں اس کی ضرورت ہر لمحہ بڑھتی جارہی ہے، اسے عام کیا جائے اور کوئی کسل مندی اور سست روی اس میں حائل نہ ہونے دی جائے۔
(۵) اصول ومقاصد میں تصلب اور ان پر توجہ تام اور اہتمام اور فروغ ووسائل میں توسع اور ماحول کی پورے اعتدال کے ساتھ رعایت کا پہلو بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہئے کہ یہی مولانا کا بہت بڑا امتیاز رہا ہے۔
(۶) مغربی تہذیب کے طوفانِ بد کا مقابلہ اسی اعتدال سے ہونا چاہئے جو مولانا کا طرۂ امتیاز رہا ہے اور اس میں کسی قسم کے افراط وتفریط کو جگہ نہیں دی جانی چاہئے۔
ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر ان کاموں میں انہماک ہی مولانا کو سب سے بڑا خراج عقیدت پیش کرنا ہے، مولانا کے بے شمار صدقات جاریہ، علوم ومعارف اور تلامذہ ومنتسبین کا وسیع ترین حلقہ ہمیشہ ان کے پیغام وفکر کا حامل وامین ثابت ہوتا رہے گا، خدائے بدیع وفیاض نے جو غیر معمولی صلاحیتیں ان کی تنہا شخصیت میں جمع کردی تھیں وہ اجتماعی طور پر سیکڑوں افراد میں بھی پائی نہیں جاتیں ، اس لئے ان کا نام اور کام ہمیشہ انشاء اللہ زندہ رہے گا:
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
rvr