آلود کردیا تھا، آپ کی کتاب نے اس گرد کو ایک بار پھر صاف کردیا، ادب کی طرف سے بھی میرا اعتماد اٹھنے لگا تھا، چوں کہ ادیبوں میں وہ آسمانی نغمہ عرصہ سے نظر نہیں آیا جس کی لَے میں شریف رضی کے وقت سے لے کر عبدالرحیم برعی تک شعراء گاتے رہے، جب میں نے آپ کی کتاب پڑھی تو یہ کھویا ہوا نغمہ پھر مجھے مل گیا، یہ نغمہ مجھے آپ کی اس نثر میں ملا جوکہ حقیقۃً شاعری ہے؛ لیکن بے ردی اور قافیہ کی شاعری، برادرم ابوالحسن! آپ کا بصدر ہزار شکریہ کہ آپ نے دوبارہ میرے اندر اپنی ذات اور اپنے ادب پر اعتماد بحال کردیا‘‘۔ (کاروانِ مدینہ ۱۱)
(علی طنطاوی)
’’اصحابِ فضل وکمال کی ایک جماعت کے سامنے میں نے ایک بار شہر لکھنؤ کا نام لیا؛ لیکن اسے کوئی پہچان نہ سکا، پھر جب میں نے کہا کہ یہ مولانا علی میاں ؒ کا شہر ہے، تب اسے لوگوں نے پہچانا، کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس مقدمہ میں قارئین کے سامنے ایسے بلند پایہ شخص کا تعارف کراؤں جو اپنے شہر اور وطن سے زیادہ معروف ہے اور جس کے نام سے اس کا شہر جانا پہچانا جاتا ہے‘‘۔ (مقدمات علی الطنطاوی ۱۰۶)
(علی طنطاوی)
’’کسی محل کا معمار یا کسی لشکر کا کمانڈر جب عظیم لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے تو مولانا علی میاں ؒ نے تو اپنے تلامذہ کے دل ودماغ میں پتھر کے قلعوں سے کہیں زیادہ پائیدار اسلامی قلعے تعمیر کئے ہیں اور صالح علماء اور مخلص داعیوں کی ایک امت تیار کردی ہے‘‘۔ (مقدماتِ علی الطنطاوی ۱۰۹)
(علی طنطاوی)
’’یہ کوئی نئی اطلاع نہیں ہے کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ جامعہ اسلامیہ مدینہ کی مجلس شوریٰ کے جلسوں میں آتے رہے ہیں اور جب بھی انہیں اس رکنیت کے ناتے سے بیش از بیش وظائف اور رقمیں پیش کی گئیں انہوں نے کبھی قبول نہیں کیا، جامعہ کے مصارف پر کبھی کسی ہوٹل میں قیام تک نہیں کیا، میرے علم میں معاصر علماء اسلام میں ایسے زہد واستغناء کی کوئی نظیر نہیں ہے‘‘۔ (علماء ومفکرون عرفتہم ۱؍۱۴۳)
(شیخ محمد المجذوبؒ)
’’قصص النبیین کے مصنف مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی شخصیت اور قلم سے میں