ہے کہ غیر اسلامی حکام تک اسلام کی صدا اتنے مؤثر انداز میں پہنچائی جائے کہ وہ اسے سننے اور اس کے مطابق چلنے پر مجبور؛ بلکہ راضی ہوجائیں ۔
جدید علم کلام کو آگے بڑھانے میں اس صدی میں حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے جو گراں قدر خدمات اپنی تالیفات، دعوتی سرگرمیوں اور خطبات کے ذریعہ انجام دی ہیں ، شاید ان میں ان کا کوئی ثانی نہ مل سکے۔ حضرت مولانا کا کام اس سلسلہ میں بہت وسیع، ہمہ گیر اور جامع نظر آتا ہے، ان کی سیکڑوں تالیفات، عرب وعجم کو یکساں دعوت وتبلیغ، ملکی وبیرونی تبلیغی ودعوتی اسفار، کانفرنسوں وسیمیناروں میں شرکت، متعدد ومختلف النوع تحریکات کی قیادت ورکنیت اور خطبات ومواعظ یہ سب مولانا کی جامعیت اور ہمہ گیری کی شاہد عدل ہیں ۔
ہندوستان ومختلف ممالک کے سربراہان، وزراء واعیان بارہا مولانا کے دربار میں حاضر ہوئے، ان کی مقناطیسی شخصیت بارہا ملک کے ہر بااثر سیات داں کو ان کی چوکھٹ پر کھینچ لائی، اور ہر بار عربی کے اس طاقت ور شعر کی تصدیق سامنے آئی:
إن الملوک لیحکمون علی الوریٰ
وعلی الملوک لتحکم العلماء
ترجمہ: بادشاہوں کی حکومت خلق خدا پر ہوتی ہے، اور بادشاہوں پر حکومت علماء ربانیین کی ہوتی ہے۔
حضرت مولانا کے فکر وعمل کی اتنی جہتیں ہیں کہ الفاظ میں یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا، اور ہر جہت ایسی حسین ودل ربا ہے کہ:
ع: کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست
عرب شاعر نے بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے:
من کثرۃ الأخبار من مکرماتہ
یمر بہ صنف ویأتی بہ صنف