غبار راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا
(کارروانِ زندگی ۲؍۱۵۶)
انسانیت کے احترام کی صدا بھی مولانا نے بڑے زور وشور سے لگائی اور:
ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البر والبحر ورزقناہم من الطیبات وفضلناہم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً۔
ترجمہ: یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی وتری میں سواریاں عطا کیں ، اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔
کو ہمیشہ مطمح نظر بنائے رکھا۔
محبین ومعتقدین کے ہجوم بے پناہ اور ذاتی مقبولیت نے کبھی اُن کے دل میں عجب وتکبر پیدا نہ ہونے دیا، یہ اُن کے اکابر خصوصاً اُن کی مشفق ماں کی آہِ سحر گاہی اور حکیمانہ تربیت کا نتیجہ تھا، تواضع وبے نفسی اور حلم وکرم سے ان کی محبوبیت ومقبولیت روز افزوں ہوتی رہی۔
ان کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہندوستان کی اسلامی درخشاں تاریخ پوری تفصیل سے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ عرب کے سامنے رکھی اور انہیں واقف کرایا، اس سے پہلے عربی میں یہ کام اس انداز میں نہیں ہوسکا تھا۔
مولانا عالم اسلام میں تعلیمی وتربیتی نظام کو ترقی وفروغ دینے نیز جدید وسائل سے استفادہ کی صدا ہمیشہ لگاتے رہے، انہوں نے نظام اسلامی کے قیام ونفاذ کی یہ دانش مندانہ تجویز رکھی کہ اس کا بہترین ذریعہ اور راستہ یہ ہے کہ ا یمان اہل حکومت تک پہنچادیا جائے، انہیں دین سے قریب کیا جائے، ذہن ودماغ اسلامی بنائے جائیں ، یہ راستہ اس کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب اور مؤثر ہے کہ خود اہل ایمان کرسی تک پہنچیں اورحکومت کی ذمہ داریاں براہِ راست سنبھال کر ایمان سے دور حکمرانوں کو بے دخل اور برطرف کردیں ، کامیابی اسی میں