نزدیک محبوبیت، اعتماد اور مقبولیت، پاکیزگی ٔباطن، عفت ضمیر وزبان، جود وزہد، استقامت واستغناء، اسلام اور مسلمانوں کے تمام مسائل پر قلق وکرب اور ان کے حل کی تڑپ وتمنا، فکر وعمل میں راستی، پوری انسانیت کو محبت واتحاد کا پیغام اور خیر خواہانہ جذبات، آزادانہ اعترافِ حق، تزکیہ نفس اور اصلاحِ باطن کی کوشش، اخلاص وفنائیت، اصول ومقاصد میں تصلب اور فروع ووسائل میں توسع، حقیقت پسندی ودور اندیشی، بصارت وبصیرت، حکمت وفراست، ایمان کامل، یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم اور ان جیسے نہ جانے کتنے بلند پایہ اوصاف وامتیازات مولانا کی زندگی، سیرت وکردار اور سرگرمیوں میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔
مولانا کی غیرتِ ایمانی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ عقیدہ ومذہب میں کسی قسم کی توہین اورحرمت کی پامالی ان سے کبھی برداشت نہیں ہوتی تھی، اسی لئے قادیانیوں اور شیعوں کے خلاف بھی مولانا نے لکھا۔ (اس کے لئے ’’صورتان متضادتان‘‘ اور ’’القادیانی والقادیانیۃ‘‘ دیکھی جاسکتی ہے) فکر کو صحیح رخ دینے کے لئے ’’أضواء‘‘ (بصائر) اور ’’التفسیر السیاسی للإسلام‘‘ (عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح) لکھی، اور عرب قومیت، ذہنی ارتداد، لسانی وتہذیبی تعصب اور تمام خطرناک چیزوں کے خلاف آواز اٹھائی، مگر اسلوبِ بیان اور طرز کلام ہر جگہ مثبت اور تعمیری رہا، ایران تشریف لے گئے تو وہاں اپنے ایک خطاب میں فرمایا:
’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ایک نئے دور کا آغاز تھی، بنی آدم میں سے جس کو بھی سعادت وخیر کا کوئی ذرہ ملا وہ خواہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہی کے مرتبہ کا کوئی شخص کیوں نہ ہو، سیدنا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ ہی سے نصیب ہوا‘‘۔
عجب کیا گر مہ و پرویں میرے نخچیر ہوجائیں
کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے