ہمیں حیرت واستعجاب ہے کہ مولانا ابوسحبان ندوی کی یہ کتاب ندوۃ العلماء کے مؤثر ادارہ مجلس تحقیقات ونشریات اسلام سے طبع ہوئی ہے جس کو حضرت مولانا علی میاں ؒ نے اس ذہنی وفکری ارتداد کے مقابلہ اور روک تھام کے لئے قائم کیا تھا، جس کے اثراتِ بد سے ایک عالم متأثر ہورہا تھا، اس ادارہ کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ باہمی نزاع کو ہوا دی جائے، نہ ہی اس لئے تھا کہ حق وصداقت سے دور کا واسطہ نہ رکھنے والے خیالات کی اشاعت کی جائے، مولانا ابوسحبان ندوی کی یہ کتاب مولانا علی میاں ؒ کا غلط تعارف پیش کرتی ہے، ہم بڑے ادب سے ذمہ دارانِ مجلس سے اس مسئلہ پر نظر ثانی کی درخواست کرتے ہیں اور مولانا ابوسحبان ندوی کو وہ دن یاد دلاتے ہیں جو بہت جلد آنے والا ہے، جب ہر شخص اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوگا اور اس وقت خوبصورت الفاظ اور حسین توجیہات کی دیواریں گرجائیں گی اور حقیقت بے نقاب ہوجائے گی۔
حضرت مولانا علی میاں ؒ کی تصنیفات وخطبات میں ایمانی صلابت اور روحانی بلندی کے ساتھ اعتدال وتوازن کا امتزاج ان کی ایک انفرادی خصوصیت ہے، اپنی زبان وقلم سے انہوں نے کبھی کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی، ان کی خلوت وجلوت میں کسی کی غیبت اُن سے نہیں سنی گئی۔ ہاں ! مگر حق کا برملا اعلان وہ پوری قوت وصراحت کے ساتھ ہر جگہ اور ہر موقع پر کرتے رہے، اور اس میں کسی مداہنت کا شائبہ تک ان کے دل میں نہ آیا، یہی در اصل ایک بندۂ مؤمن کا امتیاز ہے اور یہی اس کے کمال کی دلیل ہے۔
بدوِ شعور کے بعد سے زندگی کے آخری لمحہ تک دعوتی سرگرمیوں میں اشتغال وانہماک، عربی زبان میں بے مثال مہارت وقدرت اور اس صلاحیت کا صرف دعوت کے لئے استعمال، اظہار حق میں بے باکی اور لومۃ لائم سے بالکل بے خوفی، صحیح عقیدہ وفکر، توحید خالص، ایمان راسخ اور قرآن وسنت پر مکمل اعتماد، تمام مشاہیر اہل کمال اور معاصرین کے