من دعا رجلاً بالکفر أو قال عدو اللّٰہ ولیس کذٰلک إلا حار علیہ۔
ترجمہ: جس نے کسی انسان کو کافر یا دشمن خدا کہہ کر بلایا، اور واقع میں وہ نہ کافر ہے اور نہ دشمن خدا، تو یہ کہنا کہنے والے پر لوٹ جائے گا۔
إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث۔
ترجمہ: بدگمانی سے بچو؛ کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔
محترم مولانا ابوسحبان صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’غالباً مولانا علی میاں ؒ اپنے اسی توسع کی وجہ سے ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی (متوفی ۱۳۸۶ھ) کی مشہور کتاب ’’تراجم علماء اہل حدیث ہند‘‘ میں جگہ پانے کے مستحق ہوئے‘‘۔
(مولانا علی میاں اور علم حدیث ۳۷)
ہم مولانا سے پوچھتے ہیں کہ پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے گی جو طوافان بدتمیزی آپ کے حلقہ سے مولانا کے خلاف برپا کیا گیا اورمجروح کرنے میں سارا زور لگادیا گیا، آپ اگر مولانا کو واقعی عامل بالحدیث سمجھتے ہیں تو اس نازک موقع پر آپ کو آگے بڑھ کر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ انجام دینا چاہئے تھا کہ یہ بھی تو قرآنِ کریم اور ان صحیح احادیث سے ثابت ہے جن پر تن تنہا عمل کرنے کا دعویٰ آپ کی جماعت کو ہے، آپ کو میدان میں آکر اس تکفیری مہم کو یہ کہہ کر روکنا چاہئے تھا کہ مولانا عامل بالحدث ہیں ؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دل میں عمل بالحدیث کا جو مفہوم عدم تقلید کے نام پر بیٹھا ہوا ہے، آپ خود سمجھتے تھے کہ یہ مولانا کا کبھی وصف نہیں رہا؛ بلکہ مولانا حنفی رہے، اسی لئے آپ نے سکوت کا التزام کیا۔
حقیقت یہی ہے کہ شہادتِ حق بہت پرخطر وادی ہے جہاں قدم رکھنے کے لئے ثبات واستقامت اور توفیق ربانی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس راہ میں اکثر لوگوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں ۔