ہم بڑے ادب سے اُن سے عرض کریں گے کہ مولانا حیدر علی خاں ؒ کے بارے میں خود مولانا علی میاں ؒ نے یہ لکھا ہے کہ وہ متصلّب حنفی تھے، مذہب حنفی سے ان کی عقیدت عقیدہ کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی، اور اس کے نتیجہ میں بسا اوقات مذہب حنفی کے ناقدین کے حق میں ذرا سخت اور تنقید وشکوہ واحتجاج کے الفاظ بھی ان یک زبان سے نکل جایا کرتے تھے، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ حدیث اور اتباع حدیث پر بھی کم زور نہ دیتے تھے۔ (پرانے چراغ ۱؍۱۹۳-۱۹۴ مختصراً)
یہ جذبہ مولانا کے اندر بھی منتقل ہوا تھا، (متعدد واقعات اس کی دلیل کے طور پر ناچیز کے علم میں ہیں جو اس مختصر مضمون میں طوالت کا موجب ہوں گے) عمل بالحدیث کے ہم بھی داعی اور قائل ہیں اور کونسا مسلمان ایسا ہے جو حدیث پر عمل سے گریزاں اور مخالف ہو؛ لیکن مذہب حنفی کی بنیادیں بھي تواحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر استوار ہوئی ہیں ۔ مولانا اس لحاظ سے واقعی عاملین بالحدیث کی صف میں شامل رہے؛ لیکن عمل بالحدیث کی وہ مفروضہ اور مخترعہ شکل جو فی زمانہ ایک خاص حلقہ میں معیارِ حق وباطل اور میزان وکسوٹی بنادی گئی ہیں اور جن سے سر موانحراف بھی کفر سے کسی طرح کم نہیں مانا جاتا (اور مولانا علی میاں اسی لئے نشانۂ تنقید وتشنیع بنے رہے) مولانا ان سے کوسوں دور اور بیزار تھے، اور کوئی ایک مثال بھی اس کی تائید میں پیش نہیں کی جاسکتی، ہاں یہ ضرور ہے کہ مولانا نے وحدتِ امت کا خیال رکھتے ہوئے ہمیشہ اس طبقہ سے بھی اپنے کو مربوط رکھا، مولانا کی ذات والا صفات سے اس طبقہ کو بڑے فوائد بھی پہنچے جن کی تفصیل ہم کرنا نہیں چاہتے۔
یہ مولانا کا ظرف تھا جس میں سمندر کی سی وسعتیں اور گہرائیاں تھیں ، مگر جانب ثانی کا ظرف بھی ملاحظہ ہو کہ پھر بھی تکفیر وتضلیل سے کم پر قناعت نہیں ، کیا یہی عمل بالحدیث ہے؟ کیا یہ ’’من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ‘‘ (جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا وہ اللہ کا شکر گذار بھي نہ ہوا) پر عمل ہے؟ کیا یہ ان احادیث پر عمل ہے جس میں فرمایا گیا ہے: