سمجھا کہ اس مہم کے خلاف کوئی مخالفانہ اور مقابلانہ مہم شروع کرنے کے بجائے (جس میں مسلمانوں میں مزید انتشار پیدا ہونے کا خوف ہو) حضرات علماء حدیث کو ایک داعیانہ ومخلصانہ خط لکھیں ، جس میں ان کو ’’جہاد فی غیر جہاد ونضال فی غیر عدو‘‘ (بے موقع جہاد اور دشمن کے بغیر لڑائی) سے بچانے کی کوشش ہو، مولانا نے یہ مکتوب عربی میں مرتب کیا اور دس ممتاز ونامور عرب سلفی علماء کے پاس بھیجا، اس میں مولانا نے وقت کی نزاکت اور معنوی نسل کشی کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اصل توجہ وتوانائی حقیقی دشمن اور سنگین خطرہ کے مقابلہ پر صرف کرنے کی دعوت دی، اس میں یہ بھی لکھا کہ:
’’احناف کے خلاف جدوجہد اور جنگ شروع کرنے کے بجائے اس کی شدید ضرورت ہے کہ مشرکانہ عقائد واعمال کے خلاف پوری توجہ اور پ؍ری طاقت لگادی جائے‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۸؍۱۸)
اس مراسلہ کا جواب شیخ بن باز نے بھی دیا جس میں ائمہ اربعہ کی واضح الفاظ میں تعریف واعتراف اور تقلید کے بے کم وکاست جواز وصحت کا ذکر کیا ہے۔
لیکن مولانا نے اپنے اوپر کئے گئے ان حملوں سے تکلیف کا برملا اظہار کبھی نہیں کیا جو ان کے صبر وتحمل اور حلم ودرگذر کا ثبوت ہے، اس تفصیل کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ابھی حال ہی میں ایک نئی کتاب ’’مولانا علی میاں اور علم حدیث‘‘ آئی ہے، جس کے مصنف مولانا ابوسحبان روح القدس ندوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ہیں ، موصوف کا تعلق بھي اسی فرقہ سے ہے جس کا ذکر چل رہا ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں ایک نیا انکشاف کیا ہے اور مولان علی میاں ؒ کو غیر مقلد ثابت کرنا چاہا ہے، اور اس کے لئے ’’عامل بالحدیث‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، مولانا ابوسحبان ندوی نے اس کی ایک دلیل یہ بھی بیان کی ہے کہ ’’شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خاں ٹونکیؒ کے درس نے مولانا علی میاں ؒ کے فکر وخیال میں وسعت پیدا کی اور عمل بالحدیث کی راہ آسان کردی‘‘۔ (مولانا علی میاں ؒ اور علم حدیث، از: مولانا ابوسحبان روح القدس ندوی ۳۶)