تمام عمر اسی احتیاط میں گذری
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
مولانا کا توسع، رواداری اور اعتدال ضرب المثل ہے۔ ان کا مسلک فقہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی پیروی تھا، جس پر وہ ہمیشہ عامل رہے، اور کبھی انحراف نہیں کیا؛ لیکن بے جا تعصب اور تشدد سے کوسوں دور رہے۔ مولانا کی زندگی کے آخری دہے میں خاص طور سے ایک غیر معتدل فرقہ نے مسلک حنفی کی مخالفت کرتے ہوئے بڑے شد ومد سے مولانا کو اپنا نشانہ بنایا، انہیں ضال وکافر تک کہنے سے گریز نہیں کیا گیا، انہیں قبر پرست بھی ثابت کیا گیا، تصوف کی مخالفت میں انہیں صوفی کہہ کر سب وشتم کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا، کتابیں بھی آئیں ، بعض نے توانہیں منافق ثابت کرنا چاہا اور ’’موحد فی العرب ومشرک فی الہند‘‘ (عرب کا موحد اور ہندوستان کا مشرک) تک کہہ ڈالا جس سے مولانا کو قلبی اذیت بھی پہنچی، جب کہ مولانا کا تعلق ایسے خاندان عالی مقام سے تھا جو صدیوں سے توحید کے عقیدۂ خالص، کامل اتباع سنت اور ائمہ سلف سے پوری عقیدت اور ان کے اعتراف واحترام کا خوگر چلا آرہا ہے، خود مولانا نے اپنے استاذ خلیل عرب صاحب سے بے انتہا فائدہ اٹھایا اور بہت کچھ استفادہ کیا جو مسالک اربعہ میں سے کسی مسلک پر عامل نہیں تھے، اسی طرح اہل حدیث کے معاصر علماء وشیوخ سے احترام ومحبت کا معاملہ بھی مولانا نے کیا، خصوصاً محدثِ کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری کی شرح ترمذی ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ سے بھی مولانا نے فائدہ اٹھأیا اور ان سے سند حدیث بھی مولانا کو حاصل ہوئی۔
لیکن جب مذاہب اربعہ او ر تقلید ائمہ کے خلاف (جن میں اپنی شہرت اور اشاعت کی وجہ سے مذہب حنفی ہی خاص نشانہ بنا) ایک خاص مہم شروع ہوئی اور تقلید کو بدعت، تعلیماتِ اسلام کی مخالفت اور ضلالت قرار دئے جانے کی سرگرمیاں تیز ہوئیں تو مولانا نے یہ مناسب