ومن جور الأدیان إلی عدل الإسلام ومن ضیق الدنیا إلی سعۃ الدنیا والآخرۃ۔
ترجمہ: اللہ نے ہم کو بھیجا ہے؛ تاکہ ہم انسانوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کردیں ، دیگر مذاہب کے ظلم وبربریت سے اسلام کے دامان عدل میں پناہ دیں اور دنیا کی تنگیوں اور کشاکشوں سے نکال کر دنیا وآخرت کی وسعتیں اور فراخیاں عطا کریں )
اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا تاریخی فقرہ:
أینقص الدین وأنا حی۔
ترجمہ: کیا میرے جیتے جی دین میں کتر بیونت ہوسکتی ہے۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور جملہ:
کلموا الناس علی قدر عقولہم۔
ترجمہ: لوگوں سے ان کے عقلی مدارج کا لحاظ کرتے ہوئے گفتگو کرو۔
سے خوب خوب استدلال واقتباس ملتا ہے۔
مذہبی، فکری اور فروعی اختلافات سے مکمل گریز، اتحاد بین المسلمین کی ہر طرح سے جدوجہد میں بھی مولانا کا ثانی ملنا مشکل ہے، مولانا نے بڑی سادہ اور متواضعانہ زندگی گذاری ہے، اپنے تواپنے، غیروں سے بھی ان کا اچھا برتاؤ اور حسن سلوک ان کی عالی ظرفی کی واضح دلیل تھی، مولانا اس پر ایمان رکھتے تھے کہ:
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا
انہوں نے ہمیشہ یہ فکر رکھی کہ سب کا بھلا ہوجائے، کسی کی حق تلفی نہ ہونے پائے، بڑی احتیاط کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم رکھا۔ گویا: