مولانا کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے اساتذہ اورمحسنوں کے کرم واحسان کا اعتراف واظہار کرتے رہے، اپنی محسن کتابوں (جن میں قاضی محمد سلیمان منصورپوریؒ کی رحمۃ للعالمین سرفہرست ہے) اور محسنِ افراد (جن میں ان کے برادر بزرگ اور اصل مربی ڈاکٹر سید عبد العلی صاحبؒ، مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ وغیرہ سرفہرست ہیں ) کا ہمیشہ برملا ذکرِ خیر کرتے رہے، جن کتابوں اور شخصیات سے وہ متأثر رہے ان کا بھی ذکر کیا، ان کتابوں میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی ’’اظہار الحق‘‘ مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ کی ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ اور شخصیات میں مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت رائے پوریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ، علامہ اقبالؒ، مفتی امین الحسینی، شیخ حسن البناءؒ اور سید قطب شہیدؒ وغیرہ شامل ہیں ۔
مولانا کی آفاقیت، ہمہ گیری، جامعیت اور عالمیت ان کا بہت بڑا امتیازی وصف ہے جو بہت کم کسی کے حصہ میں آپاتا ہے، مولانا کی علمی ودعوتی وفکری سرگرمیوں ، خدمات اور تصانیف کی کثرت اور تنوع ان کے وقت کی برکت کا ثبوت ہے، ورنہ خدمات کی وسعت کا وقت سے کوئی جوڑ ہی نہیں ہے؛ لیکن مولانا ان اولیاء صالحین میں تھے جن کے ہمراہ برکت ورحمت ہوتی ہے اور لمبا کام تھوڑے سے وقت میں وہ کرلیتے ہیں ، آیات قرآنی اور احادیث ہر موقع پر مولانا کے لئے توجہ کا مرکز بنی رہیں ، بہت سی ایسی حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی جو عرصہ سے پردہ میں پڑی ہوئی تھیں ، مولانا کی دعوتی سرگرمیوں خصوصاً خطبات میں قرآن کی آیت:
یایہا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ۔
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ۔
حضرت ربعی بن عامر کا رستم کے دربار میں تاریخی جملہ:
اللّٰہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد إلی عبادۃ اللّٰہ