تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکا دینے پائے۔
ہمیشہ ان کے پیش نظر رہے، جہاں بینی ہمیشہ اُن کی فطرت رہی؛ لیکن وہ کسی جمشید کا ساغر کبھی نہیں بنے، گویا بزبانِ حال انہوں نے یہ پیغام دیا:
یخبرک من شہد الوقیعۃ أننی
أغشی الوغی وأعف عند المغنم
ترجمہ: جنگ میں شریک ہر آدمی تم کو خبر دے گا کہ میں معرکہ میں سربکف ہوکر لڑتا ہوں ؛ لیکن مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر کنارہ کش ہوجاتا ہوں ۔
اسی لئے جہاں جہاں انہوں نے نے اپنی بات رکھی وہ تلخ نوائی کے باوجود سنی گئی اور اثر انداز ہوئی؛ اس لئے کہ وہ کتاب وسنت سے ماخوذ اور مولانا کے دل کی آواز اور اندرون کی صدا ہوتی تھی، جس کی تاثیر اور کشش ہر شبہ سے بالا تر ہے، مولانا زہد وتقویٰ کے اعلی ترین مقام پر تھے، پَر ان کا زہد حقیقی تھا، دنیا سے بالکل ناآشنا اور اپنی ذات کے حصار میں چکر لگاکر رہ جانے والوں کا زہد نہیں تھا، مولانا نے مشرق ومغرب کا چپہ چپہ چھان ڈالا تھا، اکابر واصاغر سے ملے تھے، وہ دنیا سے بخوبی آشنا تھے، ان کا زہد محرومی کا رد عمل نہیں تھا، دل کی پاکیزگی اور قلب ونظر کی شفافیت کا نتیجہ تھا۔
معاصر علماء، ادباء، داعیان، مفکرین ومصنفین میں مولانا کو اس لحاظ سے بھی برتری حاصل تھی کہ مولانا کی پوری زندگی علم وعمل، تقویٰ ودیانت اور قول وفعل کی جامعیت کی بے مثال اور قابل رشک زندگی تھی، وہ سلف صالح کا جیتا جاگتا نمونہ اور تصویر تھے، ان کے ظاہر وباطن، گفتار وکردار، سیرت وصورت اور حرکات وسکنات ہر چیز سے اعتدال ٹپکتا تھا، باجماعت نماز کی پابندی اور اس کے لئے تڑپ، حمیت وحمایت دین اوراعلاء کلمۃ الحق میں بھی ان کو امتیاز حاصل تھا۔