مولانا نے وہ رقم بھی دینی مدارس اور اداروں کے لئے وقف کردی، دمشق یونیورسٹی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور عالم عرب کے متعدد اداروں اور جامعات کی طرف سے تدریس اور اعلیٰ درجہ کی سہولیات اور تنخواہوں کی بار بار پیش کش مولانا سے کی گئی، مگر ہر موقع پر مولانا نے صاف صاف معذرت کردی، شاہانِ ممالک جن میں سعودیہ عربیہ کے سربراہان شاہ فیصل شہید، شاہ خالد اور شاہ فہد، والی اردن وقدس شاہ عبد اللہ، حاکم شارقہ سلطان محمد القاسمی، پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق وغیرہ سے خصوصاً مولانا کی ملاقاتیں اور مراسلت رہی، مولانا نے ہر موقع پر بغیر کسی غرض کے مخلصانہ طور پر انہیں خطرات سے باخبر کیا اور ذمہ داریاں یاد دلاتے رہے۔
۱۹۸۳ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں اسلامک سینٹر قائم ہوا تو اس کی صدارت کے لئے بھی مولانا ہی کا انتخاب ہوا، خود ہندوستان کے بہت سے اداروں سے بار بار مولانا کو پیش کش کی گئی، حکومت نے کئی بار پدم بھوشن کا اعزاز دینا چاہا؛ لیکن مولانا کا زہد اور متاعِ دنیا سے ان کی بیزاری کا رویہ تا آخر قائم رہا، مال ودولت کے ڈھیر وانبار ان کے قدموں میں پڑے تھے، دنیا بہت جھک کر ان کے پاس آئی تھی، مگر مولانا کا قلندرانہ انداز اور مؤمنانہ کردار کبھی سرمو بھی نہیں بدلا۔ قرآنی اصول:
قل متاع الدنیا قلیل والآخرۃ خیر لمن اتقی ولا تظلمون فتیلا۔
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کا سرمایۂ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہیں کیا جائے گا۔
اور
لا تغرنکم الحیاۃ الدنیا ولا یغرنکم باللّٰہ الغرور۔
ترجمہ: دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز