میں ضرورت بڑھتی جارہی ہے) مولانا کا امتیازی وصف تھا جسے اپنانے کی کوشش مولانا کے سارے متعلقین ومنتسبین کررہے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے۔
حضرت مولانا کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’مختارات‘‘ کا دوسرا حصہ پڑھئے تو اس میں ایک مضمون ’’صفۃ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ ہے، میں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ ان اوصاف کی تجسیم مولانا کی شخصیت میں بھی نمایاں دکھائی دیتی تھی۔
زہد واستغناء مولانا کی زندگی کا ایک بہت ہی روشن باب ہے، اعزازات، مناصب، انعامات اورایوارڈ جتنے مولانا کے حصہ میں آئے شاید اس صدی کے کسی اور عالم کے حصہ میں نہ آئے ہوں ، حجاز، سوڈان ومصر، شام وعراق، ایران وافغانستان، پاکستان وبنگلہ دیش، لبنان وترکی، کویت وامارات، اردن ومراکش، امریکہ وبرطانیہ، سرلنکا وافریقہ، سمرقند وتاشقند، اندلس وبخاریٰ، یمن وقطر، ملیشیا انڈونیشیا، برما اور جاپان اور نہ جانے کتنے ملکوں اور شہروں میں مولانا بلائے گئے، کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مدعو ہوئے، عہدے دئیے گئے، مال ودولت کی پیش کش ہوئی؛ لیکن ہر جگہ مولانا نے اپنا پیام پہنچایا، اپنی فکر دی، اور کچھ لیا نہیں ۔
۱۹۸۰ء میں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا، مولانا نے اس کی رقم جہاد افغانستان اور بعض دینی اداروں کے سپرد کردی، جنرل ضیاء الحق شہید نے علامہ سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی جلد ہفتم پر مولانا کا مقدمہ دیکھا اور قدردانی کرتے ہوئے مولانا کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایک لاکھ کا عطیہ دینے کا اعلان کیا، مولانا نے اس کے جواب میں لکھا کہ میں اس عطیہ کا کسی طرح مستحق نہیں ، براہِ کرم اس کا نصف حصہ دارالمبلغین اعظم گڈھ کو پیش کردیا جائے جس نے یہ کتاب دریافت کی اور اس کی اشاعت کا انتظام کیا، بقیہ حصہ حضرت سید صاحبؒ کے پسماندگان کی خدمت میں پیش کردیا جائے، جو کراچی میں مقیم ہیں ۔ ۱۹۹۸ء میں دبئی وامارات کے سربراہوں نے مولانا کو عالمی شخصیت کا ایوارڈ دیا اور ایک خطیر رقم پیش کی؛ لیکن