اپنی طویل علت کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگئے تھے، پھر بھی وہ بڑے نشاط سے ملے، دیر تک مجلس رہی اور مختلف علمی، فکری اور ادبی موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، ان کا خادم باربار زیادہ بات کرنے سے منع کرتا رہا؛ لیکن انہوں نے ایک نہ مانی، دورانِ گفتگو جاہلی اشعار کی سچائی اور جوش کا ذکر بھی علامہ نے کیا اور حماسہ کے کچھ اشعار سنائے، انہوں نے ہندوستان کی تجدیدی واصلاحی تاریخ میں حضرت مجدد الف ثانیؒ، شاہ والی اللہ دہلویؒ، اورنگ زیب عالمگیرؒ کی خدمات کو بہت سراہا اور یہ بھی ظاہر کیا کہ اگر یہ خدمات نہ ہوتیں تو ہندوستانی تہذیب اور فلسفہ اسلام کو نگل جاتا، اقبال نے بعض صوفیہ کی فکری بے اعتدالی اور افراط پر نقد بھی کیا اور وجد وسماع سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کیا، اسی مجلس میں (جو آخری ثابت ہوئی) مولانا نے ان سے ان کے کلام کے عربی ترجمہ کی اجازت بھی چاہی جو انہوں نے بخوشی منظور کرلی، مولانا نے اس ملاقات کی تفصیلات وتأثرات کا ذکر ’’عارفِ ہندی کی خدمت میں چند گھنٹے‘‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں کیا جو متعدد رسالوں میں طبع ہوا۔
مولانا اقبال کے کے فکر وفن کے گھرے عقیدت مند تھے، وہ اقبال کو تعلیم جدید کا اس صدی کا سب سے بہتر نمونہ اور جدید مشرق کا سب سے زیادہ بالغ نظر مفکر قرار دیا کرتے تھے، تہذیب مغرب کے کمزور پہلوؤں پر اقبال کی نگاہِ دور رس سے مولانا بہت متأثر تھے، مولانا کی کتابوں ، مضامین اور خطبات میں شعر اقبال اور فکر اقبال کا حوالہ اور اقتباس ہر جگہ ضرور ملتا ہے، یہ اقبال کے پیغام ایمان ومحبت وعالی حوصلگی اور عشق رسول سے مولانا کی فکری ہم آہنگی اور توافق کی دلیل ہے، اقبال نے اسلامی قیادت وشرف کی بحالی کے لئے جو کوشش کی اور وطن پرستی اور قومیت کی جس طرح دھجیاں بکھیریں ، مولانا اس میں اقبال کے پورے مؤید اور معاون نظر آتے ہیں ، مولانا بجا طور پر اقبالیات کے ماہرین اور رمز شناسوں کی اگلی صف میں جگہ پانے کے اہل ہیں ۔ اقبال کی اس عقیدت میں کہیں بھی مولانا سے دامن اعتدال نہیں چھوٹا ہے، وہ اقبال کو معصوم اور مقدس نہیں مانتے، نہ ہی ان کی مدح سرائی اور ان کے کلام