سے استناد میں حد افراط کو پہنچے نظر آتے ہیں ، مولانا کے بقول اسلامی عقیدہ وفلسفہ کی بعض ایسی تعبیریں بھی اقبال کے یہاں ہیں جن سے اتفاف مشکل ہے، بہت سے ایسے خیالات وافکار بھی ہیں جن کی تاویل وتوجیہ اور اہل سنت کے اجماعی عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جاسکتی ہے، مولانا اس کے قائل کبھی نہیں رہے کہ اسلام کو اقبال سے بہتر کسی نے سمجھا ہی نہیں اور اس کے علوم وحقائق تک ان کے سوا کوئی پہنچاہی نہیں ؛ بلکہ مولانا زندگی کے ہر دور میں اس کے قائل رہے کہ اقبال اسلامیات کے مخلص طالب علم تھے اور اپنے مقتدر معاصرین سے وہ برابر استفادہ کرتے رہے، ان کی نادر شخصیت میں بعض ایسے کمزور پہلو بھی ہیں جو ان کے علم وفن اور پیغام کی عظمت سے میل نہیں کھاتے اور جنہیں دور کرنے کا انہیں موقع نہیں ملا، مولانا اس حقیقت پر یقین رکھتے تھے کہ اقبال وہ شاعر ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مطابق بعض حکم وحقائق کہلوائے ہیں جو کسی دوسرے معاصر شاعر ومفکر کی زبان سے ادا نہیں ہوئے۔ مولانا لکھتے ہیں :
’’میرا خیال ہے کہ پیغامِ محمدی کے بقائے دوام، امت مسلمہ کے استحکام اور اس کی قائدانہ صلاحیت، عصری نظریات وفلسفہ کی بے مائیگی پر ان کے پختہ عقیدہ سے ان کی فکر میں وضاحت اور پختگی آئی ہے، اور ان کی خودی کی تعمیر ہوئی ہے، اس معاملہ میں وہ خاص کر دینی علوم کے ان فضلاء سے بھی آگے ہیں جو مغربیت کی حقیقت سے واقف نہیں اور نہ انہیں اس کے حقیقی اغراض ومقاصد اور تاریخ سے گہری واقفیت ہے، میں پھر کہتا ہوں کہ انہیں میں نے اولو العزمی، محبت اور ایمان کا نواخواں شاعر پایا، اور اپنے بارے میں میری گواہی یہ ہے کہ جب جب بھی ان کا کلام پڑھتا تو دل جوش سے امنڈنے لگا اور لطیف جذبات سے انگڑائیاں لینی شروع کیں ، احساسات وکیفیات کی لہریں بیدار ہونے لگیں اور رگوں میں شجاعت اسلامی کی رَو دوڑنے لگی، میری نظر میں یہی ان کے شعر کی اصل قدر وقیمت ہے‘‘۔
(نقوشِ اقبال ۴۰-۴۱-۴۲ مختصراً)
عرب ممالک میں ٹیگور کی مقبولیت اور اقبال کی گم نامی مولانا کو بے حد کھٹکتی تھی، وہ