انہیں معلوم تھے، اور کم وبیش اس پر نظر تھی، اور اندازہ تھا کہ محنت ومطالعہ اور کہنہ مشقی سے وہ منزل حاصل کی جاسکتی ہے؛ لیکن اقبال کے افکار وخیالات اور ان کے سوز وساز کا سرچشمہ ان کی دسترس سے باہر تھا۔ مولانا نے تحریر فرمایا ہے:
’’اقبال کو پسند کرنے کے اسباب بہت سے ہوسکتے ہیں ، اور ہر شخص اپنی پسند کے مختلف وجوہ بیان کرسکتا ہے، انسان کی پسند کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی فن پارے کو اپنے خوابوں کا ترجمان اور اپنے دل کی زبان پانے لگتا ہے، انسان بہت خود بیں وخود پسند واقع ہوا ہے، اس کی محبت اور نفرت، تمناؤں اور دلچسپیوں کا مرکز ومحور بڑی حد تک اس کی ذات ہی ہوتی ہے، اس لئے اسے ہر وہ چیز اپیل کرتی ہے جو اس کی آرزوؤں کا ساتھ دے سکے اور اس کے احساسات سے ہم آہنگ ہوجائے، میں بھی اپنے کو اس کلیہ سے الگ نہیں کرتا، میں نے کلامِ اقبال کو عام طور پر اسی لئے پسند کیا ہے کہ وہ میری پسند کے معیار پر پورا اترتا اور میرے جذبات ومحسوسات کی ترجمانی کرتا ہے، وہ میرے فکر وعقیدہ ہی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ؛ بلکہ اکثر میرے شعور واحساسات کا بھی ہم نوا بن جاتا ہے، سب سے بڑی چیز جو مجھے ان کے فن کی طرف لے گئی وہ بلند حوصلگی، محبت اور ایمان ہے، جس کا حسین امتزاج ان کے شعر اور پیغام میں ملتا ہے اورجس کا ان کے معاصرین میں کہیں پتہ نہیں لگتا، میں بھی اپنی طبیعت اور فطرت میں انہی تینوں کا دخل پاتا ہوں ، میں ہر اس ادب اور پیغام کی طرف بے اختیارانہ بڑھتا ہوں جو بلند نظری، عالی حوصلگی اور احیاء اسلام کی دعوت دیتا اورتسخیر کائنات اور تعمیر نفس وآفاق کے لئے ابھارتا ہے، جو مہر ووفا کے جذبات کو غذا دیتا اور ایمانی شعور کو بیدار کرتا ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور ان کے پیغام کی آفاقیت وابدیت پر ایمان لاتا ہے، میری پسند اور توجہ کا مرکز وہ اس لئے ہیں کہ وہ بلند نظری، محبت اورایمان کے شاعر ہیں ، ایک عقیدہ، دعوت اور پیغام رکھتے ہیں اور مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں ، وہ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبال گذشتہ کے لئے سب سے زیادہ فکر مند، تنگ نظر قومیت ووطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت واسلامیت کے عظیم داعی ہیں ‘‘۔ (نقوشِ اقبال ۳۳-۳۴)
علامہ اقبال سے مولانا کی دوسری ملاقات نومبر ۱۹۳۷ء میں ہوئی، اقبال اس وقت