ہیں کہ تصوف کی اصل اور روح شریعت کا عین مطلوب اور نبوت کی میراث ہے وہ بسہولت اصل اور زوائد میں فرق کرکے سرگرمِ عمل ہوجاتے ہیں ۔
تصوف کے سلسلہ میں مولانا کی آراء اور موقف کا یہ بہت مختصر خلاصہ راقم نے اپنے لفظوں میں بیان کردیا ہے۔ (یہ تفصیلات ’’تزکیہ واحسان یا تصوف وسلوک‘‘ اور ’’پرانے چراغ‘‘ ۳۲۹ سے ماخوذ ہیں )
اس حقیقت میں کلام نہیں کہ تصوف کے سلسلہ میں بھی جو اعتدال وتوازن مولانا کو حاصل تھا وہ اس صدی کے معدودے چند علماء ہی کو میسر آیا ہے، تصوف سے الگ ہوکر جن حضرات نے کام شروع کیا ان کو بھی دیر سویر اسی تزکیہ باطن کی اہمیت واولیت اور اپنی جلد بازی اور نادانی کا احساس ہوا اور افسوس بھی رہا، ہم اس مضمون کا خاتمہ مولانا ہی کے الفاظ پر کرتے ہیں جن میں مولانا نے اپنا موقف صاف بیان کردیا ہے:
’’میں تزکیہ کی کسی خاص لگی بندھی اور متعین شکل پر زور نہیں دیتا جس کا رواج عام ہوا اور جس کا نام آخری دور میں تصوف پڑا، نہ ہی میں تصوف کے عاملین میں سے سب کو ہر طرح کی غلط روی وغلط فہمی سے بری سمجھتا ہوں اور نہ ان کو معصوم قرار دیتا ہوں ؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس خلا کو جو ہماری زندگی اور ہمارے معاشرہ میں واقع ہوگیا ہے جلد پر کیا جائے، اور تزکیہ واحسان اور فقہِ باطن کو پھر سے تازہ کیا جائے، جس طرح ہمارے اسلاف نے اس کو اپنے اپنے زمانہ میں تازہ کیا تھا اور یہ سب منہاجِ نبوت اور کتاب وسنت کی روشنی میں ہو، اپنے اپنے دور میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے والوں اور اس خدمت کے انجام دینے والوں پر تنقید کرنے والوں سے ایک عربی شاعر کی زبان میں کہنا چاہتا ہوں :
أقلوا علیہم لا أبا لأبیکم
من اللوم أو سدوا المکان الذی سدوا
ترجمہ: ان اللہ کے بندوں پر بہت ملامت ہوچکی، مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان کی جگہ لینے والا اور درد کا مداوا کرنے والا کوئی ہے۔
(تزکیہ واحسان یا تصوف وسلوک ۲۴-۲۵ مختصراً طبع دوم، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ)
Rvr