حضرات نے عملی جہاد میں حصہ لیا ہے، اور دعوتِ جہاد وشوقِ شہادت میں تو سبھی شریک نظر آتے ہیں ، نفسیاتی لحاظ سے بھی تزکیۂ باطن اور یقین ومحبت ہی وہ شہپر ہیں جن سے جہاد وجہد کا شہباز پرواز کرتا ہے، مرغوباتِ نفسانی، عادات ومالوفات، مادی مصالح ومنافع، اغراض وخواہشات کی پستیوں سے وہی شخص بلند ہوسکتا ہے جس میں کسی حقیقت کے یقین اور کسی مقصد کی تڑپ اور عشق نے پارہ کی تقدیر سیمابی اور بجلیوں کی بے تابی پیدا کردی ہو، تاریخ اسلامی میں ہر مجاہدانہ تحریک کے سرے پر ایک ایسی شخصیت ضرور ملتی ہے جس نے یقین ومحبت کی یہی روح پھونک کر پامردی اور شہادت کا جذبہ بیدار کیا اور اسی کو اقبال نے یوں ادا کیا ہے:
ہے وہی تیرے زمانہ کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے۔
موت کے آئینہ میں تجھ کو دکھاکر رخ دوست
زندگی اور بھی تیرے لئے دشوار کرے
دے کے احسان زیاں تیرا لہو گرمادے
فقر کی سان چڑھاکر تجھے تلوار کرے
حضرت سید احمد شہید کی تحریک جہاد میں تصوف وجہاد کا یہ بے نظیر امتزاج واجتماع ملتا ہے، سید صاحب کے جانشینوں میں مولانا سید نصیر الدین، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا یحییٰ علی، مولانا احمد اللہ صادق پوری بھی انہیں دو حیثیتوں کے جامع تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ:
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
ہر ہو سنا کے نداند جام و سنداں باختن
واقعہ یہ ہے کہ تصوف اگر اپنی اصلی روح اور راہِ نبوت کے مطابق ہو اور یقین ومحبت (جو اس کے اہم ترین مقاصد ونتائج ہیں ) بیدار کرنے کا باعث ہو تو اس سے قوتِ عمل، جذبۂ جہاد، عالی ہمتی، جفا کشی اور شوقِ شہادت پیدا ہونا لازم ہے، جو اصحابِ بصیرت افراد یہ سمجھتے