سب دین کے اس شعبہ کو شریعت کی روح، دین کا لب لباب اور زندگی کی بنیادی ضرورت قرار دیتے اور سمجھتے، اس صورتِ حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اصطلاح ’’تصوف‘‘ نے دین کی کتنی عظیم، روشن اور اہم حقیقت پر پردہ ڈال دیا ہے۔ دوسری طرف اُن پیشہ ور اور جاہ طلب، حقیقت فروش اور الحاد شعار، فاسد العقیدہ، نام نہاد صوفیوں نے اس دینی حقیقت کو اور زیادہ غبار آلود کردیا جنھوں نے دین میں تحریف کرنے، مسلمانوں کو گمراہ کرنے، معاشرہ میں انتشار پیدا کرنے، آزادی وبے قیدی کی تبلیغ کرنے کے لئے تصوف کو آلۂ کار بنایا اور اس کے محافظ وعلم بردار بن کر لوگوں کے سامنے آئے، نتیجۃً اہل غیرت وحمیت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان سے بدظن ہوگئی، کچھ غیر محقق صوفیوں نے اس شعبہ کی روح وحقیقی مقاصد سے ناواقفیت کی وجہ سے مقصد اور وسیلہ میں فرق نہیں رکھا، مقاصد کو نظر انداز کرکے وسائل پر مصر رہے اور غیر متعلقہ چیزیں داخل کرکے انھیں کو مقصود ومطلوب قرار دیا، اس طرح مسئلہ اور پیچیدہ ہوتا چلاگیا اور نزاع بڑھتا گیا، انہوں نے اس شعبہ کو معمہ اور رہبانیت بناکر پیش کیا، چناں چہ لوگ اس سے دور ہوتے گئے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ ہر دور مآں اور ہر ملک میں ایسے افراد پیدا کرتا رہا جو دین کو مبالغہ کرنے والوں کی تحریفات، باطل پرستوں کی غلط بیانیوں اور جاہلوں کی تاویلات سے پاک وصاف اور عجمیت وفلسفہ سے محفوظ کرتے رہے اور پورے اعتدال کے ساتھ تزکیہ کی دعوت دیتے رہے، جس کا نام احسان اور فقہ باطن ہے، ایسے افراد کی ہر زمانہ میں ضرورت رہی ہے۔
تزکیہ واحسان (جس کا نام بعد میں تصوف وسلوک پڑگیا) ایک الہامی نظام ہے، قرنِ ثانی سے لے کر اب تک بلا انقطاع ایک کثیر تعداد نے اس طریقہ کو اختیار کیا، دعوت دی، فائدہ اٹھایا اور پہنچایا، اور لاکھوں کروڑوں انسان اس سے فیض یاب ہوئے، اتنی بڑی