سنوارتا ہے اور ان کو کتاب ودانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے) سے ہوتا ہے۔
تزکیہ کی اعلیٰ قسم احسان ہے، جس سے مراد یقین واستحضار کی وہ کیفیت ہے جس کے لئے ہر صاحب ایمان کو کوشاں ہونا چاہئے۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے‘‘۔
شریعت اسلامی دو حصوں میں منقسم ہے، ایک کا تعلق افعال وحراکات اور امورِ محسوسہ سے ہے، مثلاً قیام وقعود، رکوع وسجود، تلاوت وتسبیح، اذکار وادعیہ، احکام ومناسک وغیرہ۔ دوسرے کا تعلق ان باطنی کیفیات سے ہے ج و ان افعال وحرکات کے ساتھ لازم ملزوم ہیں ، جن میں مثال کے طورپر اخلاص واحتساب، صبر وتوکل وغیرہ ہیں ، اول کو فقہِ ظاہر اور دوسرے کو فقہِ باطن سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، تزکیۂ نفوس واحسان بھی فقہ باطن کے دائرہ میں ہیں ، زیادہ مناسب تو یہ تھا کہ اس علم کو جس کا کام تزکیۂ نفوس اور تہذیب اخلاق ہے، تزکیہ یا احسان یا فقہِ باطن کے نام سے یاد کیا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو شاید اختلاف ونزاع کی توبت ہی نہ آتی اور سارا جھگڑا ختم ہوجاتا اور دونوں فریق جن کو محض اصطلاح نے ایک دوسرے سے الگ اور برسر نزاع کررکھا ہے، مصالحت پر آمادہ ہوجاتے، احسان اور فقہ باطن سے علمی وشرعی حقائق اور دین کے مسلمہ اصول ہیں ، جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں ، اگر اہل تصوف اس مقصد کے حصول کے لئے (جن کو ہم تزکیہ واحسان سے تعبیر کرتے ہیں ) کسی خاص اور متعین راستے یا شکل پر اصرار نہ کرتے (اس لئے کہ زمان ومکان اور نسلوں کے مزاج وماحول کے ساتھ اصلاح وتربیت کے طریقے اور نصاب بھی بدلتے رہتے ہیں ) اور وسیلہ کے بجائے مقصد پر زور دیتے تو اس مسئلہ میں آج سب یک زبان ہوتے اور اختلاف کا سررشتہ ہی باقی نہ رہتا،