ابوالاعلیٰ مودودی اورمصر سے ڈاکٹر سعید رمضان جیسی بیرونی مؤثر شخصیات بھی شامل ہوئیں ۔
رابطہ کے پہلے اجلاس میں مولانا علی میاں ؒ نے اپنا گراں قدر مضمون ’’الاخوۃ الاسلامیۃ فوق العصبیات‘‘ پڑھا، جو قدر وستائش کی نگاہ سے دیکھا گیا، اس کے بعد رابطہ کے اجلاس میں ہر سال اور بسا اوقات سال میں دوبار شرکت ہونے لگی اور بار بار حرمین میں حاضری کا مبارک موقع میسر آنے لگا، رابطہ کی مجلس تاسیسی کے علاوہ اس کے زیر انتظام ’’المجلس العالمی للمساجد‘‘ اور ’’المجمع الفقہی‘‘ کے بھی مولانا رکن منتخب ہوئے، رابطہ کے تمام جلسوں میں مولانا کو بڑی اہمیت دی گئی، رابطہ کے سرپرست وصدر شیخ بن باز مرحوم، جنرل سکریٹری شیخ محمد سرور الصبان، شیخ صالح قزاز، ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف، شیخ صالح العبید وغیرہ نیز دیگر تمام ارکان (جن میں نائب جنرل سکریٹری شیخ محمد ناصر العبودی سرفہرست ہیں ) کا مولانا سے بڑا گہرا تعلق تھا، اکثر مولانا کو ’’کلمۃ الوفود‘‘ پیش کرنے یک ذمہ داری دی جاتی تھی۔
رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹریٹ نے ۱۹۷۳ء میں چھ مسلم ممالک کا دورہ کرنے کے لئے ایک مؤقر وفد بھیجنا طے کیا، جس کا مقصد مسلمانوں کے حالات وکیفیات، ان کے علمی وتہذیبی اداروں اور ان کی ضرورتوں سے واقفیت بہم پہنچانا اور وہاں کے باشندوں کو رابطہ کے مقصد وپیام سے آگاہ کرنا تھا، اس وفد کا قائد حضرت مولانا کو بنایا گیا، اس وفد نے افغانستان، ایران، لبنان، شرق اردن، شام وعراق کا دورہ کیا، جو ۴؍جون ۱۹۷۳ء سے ۲۰؍اگست ۱۹۷۳ء کے درمیان ہوا، اس کی پوری تفصیل مولانا کے سفر نامہ ’’من نہر کابل الی نہر الیرموک‘‘ (دریائے کابل سے دریائے یرموک تک) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
جولائی ۱۹۷۸ء میں رابطہ کی پہلی ایشیائی کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی، جس کا افتتاح صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے کیا، مسٹر اے کے بروہی وزیر قانون واسلامی امور