انقلابات نے وہاں اسلامی قدروں کو زبردست نقصان پہنچایا اور مغربی تہذیب نے اپنے وبال وپر وہاں اچھی طرح پھیلادئیے، اسی غیر معتدل ماحول نے عالم اسلام کو ایسی ترقی پذیر معتدل وعادل اسلای سوسائٹی کی تشکیل سے دور کردیا ہے، جس میں اسلامی طریقۂ زندگی کو اپنے عملی وثقافتی اظہار اور نمود کا پورا موقع مل سکے۔
مغربی تہذیب کے سلسلہ میں دوسرا ایجابی موقف شکست خوردگی اور پوری طرح سر تسلیم خم کردینے کا ہے، یہ طرز فکر سب سے پہلے ترکی میں شروع ہوا۔ مشہور ترکی ادیب ضیاء گوک الپ جدید ترکی کے فکری معماروں میں سرفہرست ہے، اس نے بڑی بلند آہنگی اور جوش کے ساتھ ترکی کو اپنے ماضی قریب سے علاحدگی اور خالص قومی ومادی بنیادوں پر تعمیر وتشکیل جدید کی دعوت دی، اور اپنا پورا ادب وفن اسی نظریہ کی تائید میں استعمال کیا، یہ نظریہ قبول ہوتا گیا، اور ترکی مغربی تہذیب کے کھوکھلے مظاہر اور سطحی اسطلاحات میں الجھ کر رہ گیا۔ ترکی کے عوام (جو اسلام پسند تھے) اور مغرب پرست حکومت کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہوگئی، مغربی تہذیب کو بزور نافذ کرنے کے لئے ترکی حکومت نے جس سنگ دلی اور تشدد سے کام لیا اور صلاحیت مند افراد کو جس طرح نشانہ بنایا گیا، اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، یہ کشمکش آج بھی موجود ہے، مغربی تعذیب سے استفادہ کے میدان میں ترکی کا پارٹ خالص تقلیدی پارٹ تھا، اس کا پارٹ صرف درآمد (Import) کرنے، مستعار لینے یا نقل کرنے کا تھا، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم، چناں چہ اس دور میں نہ تو سائنسی علوم میں کوئی ترقی ترکی کو ہوئی اور نہ ہی دوسرے علوم میں ، اس طرح آج یہ قوم ایک تیسرے درجہ کی قوم کی حیثیت سے مغربی ملکوں کے زیر سایہ پل رہی ہے۔ ترکی کے ایک دانشور نامق کمال نے تمغربی تہذیب وعلوم سے استفادہ کی نسبۃً زیادہ متوازن دعوت پیش کی تھی، جس کے اثرات بھی ہوئے؛ لیکن ضیاء گوک الپ کی دعوت زیادہ مؤثر رہی، جس میں کمال اتاترک کی قیادت کا دخل ہے، اس قیادت نے ترکی میں لامذہبیت اور ماضی سے شدید انحراف وبغاوت اور عسکری آمریت کا جو