رخ اختیار کیا، مذہب کی جس شدت سے مخالفت کی، تہذیب جدید کی جس پر جوش انداز میں پوجا کی، ٹوپی اور سر کے ہر لباس کو خلافِ قانون اور ہیٹ کا استعمال لازمی کردیا، تمام اسلامی شعائر کا مذاق بنایا، عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط رائج کردیا اور پوری زندگی سے اسلامی اور عربی عناصر کو دور کرنے میں جو حیرت انگیز وبے نظیر کامیابی حاصل کی وہ ہماری تاریخ کا ایک تاریک ترین باب ہے، عالم اسلام میں بدقسمتی سے اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ تجدد کا امام، ہیرو اور آئیڈیل سمجھا گیا اور اس کی تقلید کی گئی۔
دوسری طرف ہندوستان میں مغرب ومشرق کی یہ کشمکش سامنے آئی، انگریز حکومت کے قدم ہندوستان میں جم چکے تھے، مسلمان شکست خوردہ اور مضمحل ہوگیا تھا، ۱۸۵۷ء کی شکست کے بعد اس صورتِ حال میں مزید اذافہ ہوا تھا، اس نازک مرحلہ میں دو قیادتیں مسلمانوں میں ابھریں ، پہلی قیادت علماء دین کے زیر سایہ اور دوسری سرسید احمد خاں اور جدید مکتب خیال کے افراد کی نگرانی میں ابھری۔
علماء نے حالات کی سنگینی کا جائزہ لیا، اسی پس منظر میں دارالعلوم دیوبند ۱۸۶۶ء میں قائم ہوا، سر سید احمد خاں کی تحریک مغربی تہذیب اور اس کی مادی بنیادوں کی تقلید اور جدید علوم کو اس کے عیوب ونقائص کے ساتھ بلاترمیم وتنقید اختیار کرنے کی داعی تھی، وہ سائنسی معلومات کے مطابق قرآن کی تفسیر کررہی تھی، سرسید مرحوم نے جو تعلیمی کام انجام دیا اس کا ایک کمزور پہلو یہ تھا کہ اس میں ہندوستان کے مسلم معاشرہ کے حالات اور تقاضوں کی رعایت نہ تھی اور نہ مغربی تمدن کو مادی روح سے پاک کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تھی، دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کا سارا زور انگریزی زبان وادب ہی کے حصول اور اعلیٰ تعلیم پر تھا، اور عملی علوم کی طرف کوئی خاص توجہ نہ تھی، اگرچہ یہ تحریک بڑی مؤثر اور کامیاب ثابت ہوئی اور اس کے فوائد بھی محسوس ہوئے؛ لیکن مسلمانوں کے جدید نازک ثقافتی وفکری تقاضوں کی تکمیل میں اس نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی اس سے توقع تھی، سرسید کے ان نظریات کے مقابلہ میں اکبر