اعتدال کا موقف نہیں ہے، اس لئے یہ زیادہ لمبے عرصہ تک باقی نہیں رہتا، چناں چہ جو عرب ممالک شروع میں مغرب کے اس سیلاب سے بالکل گریزاں تھے، کچھ عرصہ کے بعد وہ اس میں پورے پورے ڈوب گئے، افراط وتفریط کی یہ صورتِ حال فکر کی پستی، ذہن ودماغ کی تنگی اور قوتِ ایمانی وخود اعتمادی کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوئی، مغربی طوفان کے یہ اثراتِ بد آج بھی تمام اسلامی ممالک اور بلادِ عربیہ میں بفرق مراتب دیکھے جاسکتے ہیں ، افغانستان کے ساتھ بھی یہی ٹریجڈی پیش آئی، ایک عرصہ تک وہ مغربی تہذیب کے اثرات اور ہر قسم کی اچھی بری تبدیلیوں سے محفوظ رہا، قدیم تہذیبی ومعاشرتی روایات ورسوم کو اس نے دانتوں سے پکڑے رکھا، وہ جدید تہذیب کے صالح اور مفید اجزاء کو بھی قبول کرنے کا روادار نہیں تھا؛ لیکن آخر میں یہ حجاب اٹھا اور اس نے بھی مغربی تہذیب اور طرزِ زندگی کو (اپنی کمزوریوں اور سارے معائب کے ساتھ) قبول کرنے کا تہیہ کرلیا اور پھر آنکھیں بند کرکے تیزی کے ساتھ مغربی تہذیب ومعاشرت کو اپنالیا۔
حضرت مولانا نے ۱۹۷۳میں اپنے سفر افغانستان کے تأثرات میں لکھا ہے کہ:
’’افغانی قوم اپنے ماضی سے بہت دور جاپڑی ہے، اور یہ دوری ماہ وسال کی تعداد کے اعتبار سے تو تم کم ہے، یعنی صرف ۴۵؍سال؛ لیکن فکری وتمدنی اعتبار سے یہ مسافت بہت طویل ہے، اکثر قومیں کہیں صدیوں میں اتنی مسافت طے کرتی ہیں ۔ افغانستان میں پردہ اب پسماندگی، جہالت وغربت کی علامت بن گیا ہے، اور دین کے نمائندہ علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج بہت وسیع ہوگئی ہے، جس کو پر کرنا آسان نہیں ہے۔ (دریائے کابل سے دریائے یرموک تک ۳۱-۳۲ مختصراً)
(طالبان کی موجودہ حکومت نے صورتِ حال پر بہت کنٹرول کیا ہے، اور شعائر واحکام اسلامی کی پیروی کا مزاج پیدا کیا ہے) افراط وتفریط کا یہ ماحول ہم کو یمن میں بھی خوب ملتا ہے، ایک طویل عرصہ تک یمن تہذیب مغرب کا بالکلیہ مخالف رہا؛ لیکن پے بہ پے