علامہ سید سلیمان ندویؒ سے بھی مولانا نے استفادہ کیا ہے، سید صاحب سے مولانا کے خاندان کا تعلق وربط بہت قدیم ہے، وہ مولانا کے والد ماجد کے شاگرد اور مولانا کے برادر بزرگ کے دوست تھے، سید صاحب سے مولانا نے ندوہ میں دورانِ تدریس کافی استفادہ کیا تھا؛ لیکن ان کی خصوصی توجہ اور شفقت مولانا پر اس وقت ظاہر ہوئی جب مولانا نے سیرتِ سید احمد شہیدؒ کا کام مکمل کیا۔ ۱۹۳۸ء کے آغاز میں سید صاحب کے سامنے یہ کتاب پیش کی اور مقدمہ لکھنے کی درخواست کی، سید صاحب نے بے حد مؤثر مقدمہ لکھا، یہ مقدمہ ان کی قیمتی تحریروں میں نمایاں مقام رکھتا ہے، جس میں دماغ کے ساتھ دل اور علم وزور انشاء کے ساتھ عشق ووجدان بھی شامل ہے۔ مقدمہ کے آخر میں لکھتے ہیں :
’’مصنف نے یہ کتاب بڑی دقت سے لکھی ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں رشد وہدایت اور عزم وہمت کا ایک صحیفہ دے دیا ہے، کیا عجب ہے کہ مسلمان اس تاریخی موقعہ پر اس کتاب سے اصلاح وہمت کا فائدہ اٹھائیں اور اپنے ماضی کے آئینہ میں اپنے مستقبل کی شکل وصورت دیکھیں ‘‘۔ (سیرت سید احمد شہید ۱؍۴۲، طبع ہفتم)
اپنے ایک مکتوب میں سید صاحب نے اس کتاب پر داد دی اور لکھا:
’’کتاب ملی، جابجا سے پڑھی، بعض حصے تو بہت مؤثر ہیں ، جن کو پڑھ کر آنکھیں پر آب ہوگئیں ، آپ کا انداز بیاں اور انشاء بھی دل پذیر ہے، اللہ کرے حسن رقم اور زیادہ‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۲۷)
اس کے بعد کرنال وپانی پت کے ایک سفر میں سید صاحب نے اپنی معیت کے لئے مولانا کا انتخاب کیا، دورانِ سفر بھی مولانا نے کافی استفادہ کیا، ۱۹۳۵ء میں سید صاحب سخت بیمار ہوئے، علالت سے افاقہ کے بعد لکھنؤ تشریف لائے، تو ندوۃ العلماء میں ایک استقبالیہ جلسہ منعقد ہوا، اس میں مولانا نے ایک سپاس نامہ ندوہ کے اساتذہ کی طرف سے پیش کیا، جس میں سید صاحب کی تمام اہم تصانیف کے نام تلمیح واشارہ کے پیرایہ میں آگئے تھے، یہ سپاس نامہ توجہ سے سنا گیا، سید صاحب کو حضرت تھانویؒ کی وفات کے بعد رئیس التبلیغ مولانا