محمد الیاس کاندھلویؒ سے گہرا تعلق ہوگیا تھا، اسی لئے جب مولانا کی کتاب ’’مولانا الیاس اور ان کی دینی دعوت‘‘ مرتب ہوئی، تو سید صاحب نے بطور مقدمہ ایک عالمانہ مضمون تحریر فرمایا، جس کے ہر لفظ سے عقیدت وتأثر کا احساس ہوتا ہے۔ سید صاحب ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم تھے، اور وہ ندوۃ العلماء کو قلب درد مند، ذہن ارجمند اور زبان ہوشمند تینوں کا معیاری نمونہ اور مجموعہ بنانا چاہتے تھے، ندوۃ العلماء میں دینی فضا عام کرنے میں سید صاحب کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ۱۹۴۶ء میں سید صاحب بھوپال منتقل ہوئے؛ لیکن بدستور ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم باقی رہے، البتہ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ بھوپال میں رہ کر وہ ندوہ کی تعلیمی نگرانی پوری طرح نہیں کرسکیں گے، تو مولانا کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ:
’’ندوہ کے متعلق میرے جذبات وہی ہیں جو آپ کے ہیں ، میری تو ہمیشہ سے یہی رائے ہے کہ اب آپ اس بار گراں کو اپنے سر اٹھالیں -جوان ہو تم لبِ بام آچکا آفتاب اپنا- میں بہرحال آپ کی مدد کروں گا‘‘۔ (پرانے چراغ ۴۴-۴۵ مختصراً)
پھر ۱۹۴۹ء میں سید صاحب ہنے خود تجویز رکھی کہ مولانا کو نائب معتمد بنایا جائے جو منظور ہوئی، مولانا نے سید صاحب کی رہنمائی میں کام شروع کیا اور سید صاحب کا اعتماد ہمیشہ باقی رہا، ۱۹۴۹ء میں ہی سید صاحب کی رہنمائی میں کام شروع کیا اور سید صاحب کا اعتماد ہمیشہ باقی رہا، ۱۹۴۹ء میں ہی سید صاحب حج کے لئے تشریف لے گئے، حجاز میں جماعت تبلیغ نے سید صاحب کے قیام سے فائدہ اٹھایا، اس سے قبل ۱۹۴۷ء میں مولانا نے تبلیغی خدمات حجاز میں بڑے مؤثر انداز میں انجام دی تھیں ، سید صاحب نے اس کے اثرات محسوس کئے اور واپسی پر اپنے ایک مکتوب میں لکھا:
’’بے شک جو چیز آپ کے لئے آثارِ سعادت میں سے ہے وہ یہ ہے کہ بحمد اللہ تعالیٰ دوسال گذرنے کے بعد آپ کے نام اور کام کو میں نے زندہ پایا؛ بلکہ آپ کی نسبت سے مجھے بزرگی ملتی رہی‘‘۔ (پرانے چراغ ۴۸-۴۹مختصراً)